پاکستان کی سپریم کورٹ نے منگل کو برطانوی نژاد پاکستانی احمد سعید عمر شیخ کو سزائے موت کے لیے معین کردہ قید خانے سے نکالتے ہوئے ’سیف ہاؤس‘ منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔
عمر شیخ کو 2002 میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے جرم میں گرفتار کرنے کے بعد سزا سنائی گئی تھی۔ عرب نیوز کے مطابق عدالت نے یہ حکم سندھ حکومت کی دائر اپیل کی سماعت کے دوران جاری کیا، جس نے جمعے کو عدالت کی جانب سے عمر شیخ کو رہا کرنے کے حکم نامے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی۔
پاکستانی اخبار بزنس ریکارڈر کے مطابق ’عدالت نے حکم دیا کہ گرفتار افراد کو دو دن کے لیے جیل کی بیرکوں میں رکھا جائے جس کے بعد انہیں حکومت کے ریسٹ ہاؤس میں منتقل کر دیا جائے۔‘
عدالتی حکم نامے کے مطابق عمر شیخ کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک رہ سکتے ہیں جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولت نہیں ہو گی۔
سوموار کو عدالت نے عمر شیخ اور باقی ملزمان کی رہائی کو 24 گھنٹے کے لیے موخر کر دیا تھا، جس کے بعد ان افراد کی منگل کو رہائی متوقع تھی۔ گذشتہ ہفتے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید کا کہنا تھا کہ ’یہ سوال کہ کیا عمر شیخ کو رہا کیا جا سکتا ہے؟ اس بات پر مجھے شک ہے۔‘
یاد رہے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو 2002 میں کراچی سے اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا، جس پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے انہیں سزائے موت اور دیگر تین ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ نے عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل جب کہ تین ملزمان کو 18 برس بعد رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ حکومت سندھ اور ڈینیئل پرل کے والدین نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عدالت کے فیصلے پر عمر شیخ کے والد احمد سعید شیخ کا کہنا تھا کہ ’یہ مکمل آزادی نہیں لیکن یہ آزادی کی جانب ایک قدم ہے۔‘ احمد سعید شیخ بھی عدالت کی کارروائی کے دوران موجود تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ جمعرات کو سپریم کورٹ کے عمر شیخ کی رہائی فیصلے کو توثیق کے بعد پاکستانی حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد روکنا چاہتی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے پر امریکی انتظامیہ اور ڈینیئل پرل کے اہل خانہ نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا تھا کہ اگر عمر شیخ کی رہائی کا فیصلہ برقرار رکھا جاتا ہے تو وہ عمر شیخ کی امریکہ کو حوالگی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
یاد رہے عمر شیخ پر ڈینیئل پرل کے قتل کے علاوہ 1994 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک امریکی شہری کے اغوا کا مقدمہ چلایا جا چکا ہے۔ اس امریکی شہری کو بعد میں رہا کر دیا گیا تھا جبکہ عمر شیخ کو اس اغوا کی واردات کے بعد بھارت میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
انہیں 31 دسمبر، 1999 کو بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ کے بعد یرغمالیوں کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔ انہیں رہائی کے بعد بھارت سے نیپال اور وہاں سے افغانستان منتقل کیا گیا تھا۔