اس تحریر کو آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
کوئی بھی غیر جانبدار شخص اس بات کی تحسین کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تل ابیب مہلک عالمی وبا کا مقابلہ اور اپنے شہریوں کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے تیز رفتار ویکسی نیشن مہم چلا رہا ہے۔
ویکسی نیشن سے پہلے اسرائیل میں کووڈ۔19 کو کنڑول کرنے کی کوششوں پر بحیثیت مجموعی بہت زیادہ لے دے ہوتی رہی۔ تاہم اس وقت اسرائیل کی ایک تہائی آباد کو ویکسین کی پہلی خوراک لگائی جا چکی ہے۔ ایک تہائی میں سے نصف کو دوسری خوراک بھی لگ چکی ہے۔ دنیا میں کرونا وائرس کے خلاف کہیں بھی کیا جانے والا یہ تیز رفتار ترین ویکسی نیشن پروگرام ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل اپنی ضرورت سے زیادہ ویکسین خرید چکا ہے۔ خریدی گئی ویکسین اسرائیل پہنچ چکی ہے یا پھر پہنچنے والی ہے۔ ہر لحاظ سے یہ بات قابل تحسین ہے۔ اس سب کے باوجود اسرائیلی کابینہ کے کسی وزیر یا پھر وزیر اعظم نیتن یاہو کو یہ توفیق نہ ہو سکی کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں بسنے والے فلسطینیوں کو انسانی بنیادوں پر ویکسین لگانے سے پہنچنے والے سیاسی فوائد کا ادراک کر سکیں۔
مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی حکام نے لیت ولعل سے کام چلانے والی اسرائیلی حکومت کو گذشتہ ہفتے بڑی مشکل سے یہ بات ماننے کے لیے تیار کیا کہ کرونا (کورونا) وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کی 5000 خوراکیں فلسطین میں طبی عملے کو لگائی جائیں۔ اس سے زیادہ فلسطینیوں کو ایک خوراک بھی نہیں دی جائے گی۔
یہ بات کسی بھی طرح قابل عمل دکھائی نہیں دیتی کہ اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی اور بین الاقوامی انسانی تنظیموں کے ساتھ مل کر صہیونی تسلط میں زندگی کرنے پر مجبور تقریباً 45 لاکھ فلسطینیوں کے لیے ویکسی نیشن پروگرام کا اہتمام کرے۔
اخلاقی اعتبار سے فسلطینیوں کے لیے ویکسی نیشن پروگرام کا اہتمام بالکل اسی طرح ضروری ہے جیسا اسرائیلی شہریوں کے لیے کیا گیا۔ ایسا کرنے سے اسرائیل بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داری پوری کرے گا۔ محدود علاقے کے اندر عالمی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے ساتھ یہ اقدام اعتماد سازی کا ایک مفید ذریعہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
اسرائیل اسے اپنی بین الاقوامی ساکھ میں بہتری کی غرض سے بطور پبلک ریلیشن ٹول بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے مابین تنازع کی پیچیدگی دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کووڈ۔19 نے دونوں فریقین کے لیے win win صورتحال پیدا کر دی ہے۔ نہ جانے کیوں اسرائیل اس موقع کو کسی معقول وجہ کے بغیر ضائع کرنے کے درپے ہے؟
بین الاقوامی قانون کے ماہرین کے مطابق چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکلز 55 اور 56 کے روشنی میں کوئی بھی بالا دست قوت اپنے زیر تسلط افراد کی صحت کا خیال رکھنے کی پابند ہے۔ کنونشن میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ’کہ قابض قوت اپنے زیر نگین آبادی کو طبی سپلائی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی پابند ہے۔ بالخصوص کسی بھی قابض قوت کے زیر نگین علاقے میں متعدی مرض یا وبا پھیل جائے تو وہ ملک اس کا تدارک کرنے کا پابند ہے۔‘
اسرائیل نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے متعلق اپنی قانونی اور بین الاقوامی ذمہ داریاں ہمیشہ انتہائی غیر سجنیدگی سے پوری کیں۔ مقبوضہ علاقوں میں جب اسرائیلی سکیورٹی کو خدشہ لاحق ہوتا ہے تو تل ابیب وہاں صورت حال میں بہتری کے لیے تمام جائز اور ناجائز اقدامات کر گزرتا ہے۔ اسرائیل کو مقبوضہ علاقے میں جب زمین ہتھیانی ہو، غیر قانونی آبادکاروں کے لیے رہائشی مکانات بنانے ہوں، تو اسے نہ کوئی قانون یاد رہتا ہے اور نہ ضابطہ، سب کچھ بلڈوز کر دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب جب مقبوضہ علاقوں میں کوئی ذمہ داری ادا کرنے کا وقت آتا ہے تو اسرائیل فورا اس دلیل کا سہارا لیتا ہے کہ غرب اردن میں فلسطینیوں کی بہتری کے اقدامات کرنا دراصل فلسطینی اتھارٹی اور غزہ کے علاقے میں یہ فریضہ وہاں کی حکمران جماعت اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کا ہے۔ اسرائیل کی یہ روش منافقت کی ایک اور کھلی مثال ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اسرائیلی فوجی ان علاقوں میں آن گراؤنڈ موجود ہیں یا نہیں، عملی طور پر تل ابیب ہی فلسطین کے ان دونوں علاقوں کو کنڑول کرتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں 176,000 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی جن میں 1900 اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ویکسی نیشن اس وقت زندگی وموت کا مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ نے گذشتہ مہینے باور کرایا تھا کہ ’صحت عامہ کے بدترین عالمی بحران کے دنوں میں رواں صدی کے اندر صرف من پسند افراد کو صحت کی سہولت فراہم کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں۔‘
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو گذشتہ مہینے ایک انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر صحت یولی ایڈل سٹائن نے اپنی حکومت کے چیندہ ویکسی نیشن پروگرام کے حوالے سے شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ ’فلسطینیوں کے لیے ویکسی نیشن پروگرام ترتیب دینا اسرائیل کی ذمہ داری نہیں ہے ۔‘ان کا اصرار تھا کہ ’فلسطینیوں کے لیے ویکسی نیشن کا اہتمام کرنا فلسطینی وزیر صحت کی ذمہ داری ہے۔‘
گستاخانہ انداز میں انھوں نے سوال کیا: ’کیا فلسطینی وزیر صحت بحر متوسط میں ڈولفن مچھلیوں کا خیال رکھنے کے ذمہ دار ہیں؟‘ اگر ایڈل سٹائن کے ٹھٹھے کو سیریس لیا جائے تو اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ قابض اسرائیلی حکومت کی پابندیوں اور کووڈ۔19 کے سخت پروٹوکولز کی وجہ سے غرب اردن کے رہنے والے فلسطینی تو ایک دن بھی بحر متوسط کے ساحل پر بھی نہیں گزار سکتے، ایسے میں وہ بیچارے ڈولفنز کی دیکھ بھال کیونکر کر سکیں گے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو ماہ کے اندر اسرائیل میں پھر ایک انتخابی معرکہ بپا ہونے جا رہا ہے۔ کرونا سے بڑھتی ہوئی اموات، تباہی کی طرف گامزن معیشت، معاشرتی اور ذہنی صحت کے نتائج اور بالخصوص تین لاک ڈاؤنز کی وجہ سے تباہی کے کنارے کھڑے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اپنے ووٹروں کو کچھ کامیابی دکھانا چاہتے ہیں۔ ویکسین کا فوری اہتمام یقینا ان کی بڑی کامیابی ہے۔
فلسطینی چونکہ اسرائیلی انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالتے اس لیے وزیر اعظم کو ان کی بے بسی کا مداوا کرکے کوئی ہمدردی نہیں سمیٹنی۔ فلسطینیوں کو ویکسین لگانے کا نیتن یاہو کو کوئی سیاسی فائدہ نہیں اور نہ ہی اس کے لیے ان کے پاس توانائی، رقم اور وقت ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی فلسطینیوں کی صحت عامہ سے متعلق سوچ اور اپروچ مجرمانہ حد تک افسوسناک رہی ہے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور حماس اپنے لوگوں کے بچاؤ کے ذمہ دار ہیں۔ یہ لوگ خود مختار ریاست نہیں، نہ ہی اپنے معاملات میں کلیتاً آزاد ہیں۔ اسرائیلی قبضے، ناکوں اور نامناسب مطلق العنان انداز حکمرانی کے باعث فلسطین کے دونوں علاقے [غزہ اور غرب اردن] گہرے معاشی بحران میں ڈوبے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ملکی سطح کا مؤثر ویکسی نیشن پروگرام تربیت دینا ان کی بساط سے باہر ہے۔
کیا دنیا ان علاقوں میں بسنے والے لاکھوں فلسطینیوں کی صحت اور سلامتی سے متعلق اغماض برتنے میں حق بجانب ہے جو قابضین اور خود اپنی قیادت کی پے در پے غلطیوں کے باعث یوسف بے کارواں بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کووڈ۔19 کی وبا پر قابو پانے کے لیے کامیاب ویکسی نیشن پروگرام پر عمل کر رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ صہیونی ریاست، فلسطینیوں کو دشمن جان کر تنگ نظری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انہیں کم سے کم انسان سمجھ کر اپنی ریاستی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے آگے بڑھے۔
اسرائیل کسی اور کی نہ سہی ان 200 ربیوں [یہودی مذہبی پیشواؤں] کی اپیل پر ضرور کان دھرے: کہ ’یہودیت اپنے ہمسائے سے لا تعلقی نہیں سکھاتی بلکہ اس کا اخلاقی اصول ضرورت کے وقت ان کی مدد کے لیے وسائل مجتمع کرنے کا درس دیتا ہے۔‘
یہ وقت یہودیت کی ایسی ہی تعلیمات پر عمل درآمد کا ہے۔ اس سے نہ صرف الہامی تبدیلی کی راہ ہموار ہو گی بلکہ اس سے ہزاروں زندگیوں کا چراغ گل ہونے سے بھی بچایا جا سکے گا۔