امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان زیڈ تارڑ کا پاک چین اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے حوالے سے کہنا ہے امریکہ چاہتا ہے کہ اس کے جتنے بھی شراکت دار ہیں وہ چین کو کھلی آنکھ سے دیکھیں۔
محکمہ خارجہ کی اردو اور ہندی زبانوں کے ترجمان زیڈ تارڑ نے لندن سے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک انٹرویو میں پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شراکت دار کھلی آنکھ سے چین کو دیکھیں اور تعاون کے تمام فیصلے شفافیت سے کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بھی شراکت دار قرضوں کے بوجھ تلے آئے۔
زیڈ تارڑ لندن میں امریکی محکمہ خارجہ کے لندن میڈیا ہب میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر فرائض انجام دے رہے ہیں جب کہ وہ جنوبی ایشیا کے حوالے سے محکمے کے میڈیا امور کو دیکھتے ہیں۔
امریکہ کی پاکستان سے متعلق پالیسیز، وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے سوال کے جواب میں زیڈ تارڑ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ درست ہو گا کہ ہم کسی حکومت کو کوئی سکور دیں۔‘
’پاکستان اور امریکہ تعلقات ایک تاریخی معاملہ ہے اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت مواقع ہیں۔ خود سیکریٹری بلنکن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے گفتگو میں کہا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ تعلقات کو مضبوط بنا سکیں خاص کر کے تجارت کے شعبے میں۔‘
زیڈ تارڑ کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز صدر بائیڈن نے محکمہ خارجہ سے خطاب میں صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ’عالمی سطح پر امریکہ اب واپس آ گیا ہے۔ اب ہم اپنی خارجہ پالیسی کو مرکزی کردار دیں گے۔‘
سابق صدر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی تو کیا نئی بائیڈن انتظامیہ بھی کچھ ایسا کرے گی اس سوال پر زیڈ تارڑ نے کہا کہ ’بائیڈن انتظامیہ ٹرمپ انتظامیہ سے کئی گناہ مختلف ہے۔۔۔۔۔ عالمی سطح پر مسائل بات چیت اور سفارت کاری سے حل ہوتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ براہ راست پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت سے کشمیر کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘
بائیڈن انتظامیہ کے کشمیر کے مسئلے کے حل میں کردار پر انہوں نے کہا کہ ’ابھی تک بائیڈن انتظامیہ نے کوئی ایسا فیصلہ نہیں لیا اس لیے آج تک میں یہ ہی کہہ سکتا ہوں کہ شاید دو طرفہ یا براہ راست بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔‘
سیکریٹری بلنکن کی ٹویٹس جس میں انہوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا ک ڈینیئل پرل کے قاتلوں کا احتساب کیا جائے گا جب کہ بھارت سے شراکت داری اور ترجیحات کا ذکر کیا گیا تھا۔ زیڈ تارڑ سے پوچھا گیا کہ ایسی ٹویٹس سے کیا اس تاثر کو تقویت نہیں ملتی کہ امریکہ پاکستان پر بھارت کو ترجیح دیتا ہے؟
جواب میں انہوں نے اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہم امریکی خارجہ پالیسی دیکھتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایسا کوئی مقابلہ ہے ۔ میں خود اسی فائل کو سنبھال رہا ہوں اور دفتر خارجہ میں بطور سفارت کار مجھے 11 سال ہو گئے اور مجھے کبھی کوئی ایسا شک نہیں ہوا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات باقی دنیا کے مقابلے میں مختلف ہیں ۔‘
ڈینیئل پرل کیس کے حوالے سے انہوں نے سیکریٹری بلنکن کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’ہم پریشان ہیں یہ خبر سن کر کہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قاتلوں کو قید سے نکالا گیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ہر ممکن قدم اٹھائے تاکہ ڈینیئل پرل کے (قتل کے) ذمہ داروں کا احتساب یقینی ہو سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نئی بائیڈن انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اب چین کے زاویے سے دیکھے جائیں گے جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ یہ بات درست ہے۔ صدر بائیڈن اورسیکریٹری بلنکن صاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ چین ہمارا مقابل ہے۔ یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات صرف چین کے زاویے سے دیکھے جائیں گے۔‘
’ہماری ایک اور بھی ترجیح افغانستان میں امن اور استحکام ہے اور پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن و استحکام قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔‘
ایران اور بھارت کے درمیان چابہار بندرگاہ کے حوالے سے سوال پر ان کہنا تھا کہ ’صحافی جب سوال پوچھتے ہیں سی پیک اور چابہار کے حوالے سے کہ ایک پر تنقید کر رہے ہیں اور دوسری سائیڈ کو کچھ نہیں کہتے، یہ درست نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ عالمی تجارت کے لیے ایک صاف اور شفاف کھلا ماحول بنے۔‘
’آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم ایران کی حرکتوں سے پریشان نہیں ہیں۔ کانگریس، وائٹ ہاؤس اور سیکریٹری بلنکن صاف الفاط میں کہہ چکے ہیں کہ ہم انتہائی پریشان ہیں ایران کے حوالے سے اور اسی لیے ہم اپنے پارٹنرز کے ساتھ کام کر رہے ہیں کہ ان کے پاس ایٹم بم کبھی نہ آ سکے اور ہم اپنے جے سی پی او اے (ایران امریکہ معاہدہ) پر ایران کے ساتھ واپس آ سکیں۔‘
افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن عمل کے حوالے سے ان سے پوچھا گیا کہ کیا نئی بائیڈن انتظامیہ طالبان کے ساتھ ہوئے دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کر رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اس پورے عمل پر ایک ریویو (نظر ثانی) چل رہا ہے اور خاص طور پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ طالبان نے جو وعدہ کیا ہے وہ درست ہے اور کیا طالبان اپنے وعدوں کو یقینی بنانے کے لیے ہر قدم اٹھا رہے ہیں یا نہیں۔ یہ ریویو ابھی چل رہا ہے مگر یہ تفصیل ابھی موجود نہیں ہے کہ یہ کس طرف جا سکتا ہے۔
افغانستان سے طالبان افواج کے انخلا پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت فورسز کے انخلا کے حوالے سے صدر بائیڈن نے کوئی فیصلہ نہیں لیا۔ ہم پہلے ریویو کریں گے اور پھر امریکی فوجیوں کے انخلا پر فیصلہ کریں گے۔‘