افغانستان کے دارالحکومت کابل سے شائع ہونے والے ایک اخبار ‘ہشت صبح’ نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج اور افغان حکومت سے لڑنے والے طالبان گروپ کے اہم رہنما ملا ہبت اللہ اخونزادہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ایک دھماکے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
اخبار نے دعویٰ کیا کہ باوثوق ذرائع نے انہیں بتایا کہ چند ماہ قبل کوئٹہ شہر کے مضافات میں افغان طالبان کے ایک رہنما حافظ عبدالمجید کے گھر پر ہونے والے ایک مبینہ دھماکے میں ملا اخونزادہ اپنے دو ساتھیوں حافظ عبدالمجید اور ملا مطیع اللہ سمیت ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہشت صبح نامی اخبار کے مطابق ملا ہبت اللہ اور ان کے ساتھی ملا مطیع اللہ موقعے پر ہی ہلاک ہو گئے جب کہ حافظ عبدالمجید نے پاکستان کے ایک ہسپتال میں دو تین دن بعد دم توڑا۔
میڈیا پر شائع ہونے والی کچھ رپورٹس کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس خبر کی تردید کی ہے۔ تاہم ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر تاحال تردید یا تصدیق کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔
‘یہ وقت بہت اہم ہے’
پشاور کے سینیئر صحافی مشتاق یوسف زئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے افغانستان میں ہلمند، زابل اور غزنی میں طالبان ذرائع سے اس خبر کی تصدیق کے حوالے سے رابطہ کیا توانہیں بتایا گیا کہ ملا ہبت اللہ کے ہلاک ہونے کے حوالے سے چھپنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں اور یہ کہ ان کے لیڈر کوئٹہ میں رہائش نہیں رکھتے۔
صحافی مشتاق نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘افغانستان میں جاری جنگ کے حوالے سے یہ وقت بہت اہم ہے۔ ایک طرف امریکہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ پھر سے مضبوط ہو رہی ہے، تو دوسری جانب طالبان پر الزام لگ رہا ہے کہ وہ قطر امن معاہدے پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے ہیں اور افغانستان میں سیز فائر بھی نہیں ہو رہا۔
’طالبان خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکہ کے ڈرون حملوں میں شدت آگئی ہے اور معاہدے کے مطابق امریکہ نے ابھی تک اپنی جنگی کارروائیاں نہیں روکیں۔ ایسے حالات میں ملا ہبت اللہ کی پاکستان میں مرنے کی خبر کا مقصد صرف امن کوششوں کونقصان پہنچانا اور پاکستان کو بدنام کرنا ہے۔’
افغان حکومت اور طالبان مخالف قوتیں الزام عائد کرتی آئی ہیں کہ افغانستان میں لڑنے والے طالبان جنگجوؤں کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور ان کے رہنما کوئٹہ شہر سے ‘کوئٹہ شوری’ کے نام پر رہنمائی اور جنگی حکمت عملی چلا رہے ہیں۔ تاہم پاکستان نے ہمیشہ ایسی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امن افغانستان میں امن کے بغیر ممکن نہیں۔
‘حافظ عبدالمجید اور ملا مطیع اللہ زندہ دیکھے جا چکے ہیں’
افغان امور کے ماہر اور معروف صحافی طاہر خان کے مطابق، ‘ملا ہبت اللہ کی موت میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ ملا ہبت اللہ کے ساتھ جن دو ساتھیوں کے مرنے کا بتایا جا رہا ہے ان کے بارے میں ایسی خبریں ہیں کہ وہ کچھ دن قبل زندہ دیکھے گئے۔’
طاہر نے بتایا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہوتا تو اس تیز رفتار ٹیکنالوجی کے دور میں اتنے ماہ یہ خفیہ نہیں رہ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ملا عمر کی موت کی خبر دو سال تک چھپائی گئی لیکن تب خبریں اتنی تیزی سے گردش نہیں کرتی تھیں۔
‘لیڈر کے مرنے سے طالبان کا نظام متاثر نہیں ہوتا’
پشاور سے تعلق رکھنے ایک اور سینیئر صحافی اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق ملا ہبت اللہ اخونزادہ کے مرنے کی خبروں کی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی لیکن اگر ایسا ہے بھی تو اس سے اس گروپ کی کارروائیوں پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔
انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال پر کہ ملا ہبت اللہ کی موت کی صورت میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات پر کیا اثر پڑے گا؟ کے جواب میں رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ ‘طالبان ایک نظام کے تحت کام کرتے ہیں اور کسی لیڈر کے مرنے سے ان کے نظام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔’
ملا ہبت اللہ کون ہیں؟
مئی 2016 میں پاکستانی سرزمین پر ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما ملا اختر منصور کی موت کے چار دن بعد طالبان نے ملا ہبت اللہ اخونزادہ کو اپنا لیڈر منتخب کیا تھا۔
افغان صوبے قندھار سے تعلق رکھنے والے اخونزادہ کی عمر تقریباً 60 سال بتائی جاتی ہے۔ 80 کی دہائی میں انہوں نے روس کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور 1994میں ملا عمر کی رہنمائی میں طالبان تحریک کا حصہ بنے۔
طالبان میں شمولیت کے بعد انہیں قندھار کی ایک عدالت کا جج مقرر کیا گیا۔ علاوہ ازیں، ملا اخونزادہ کا اس عسکریت پسند گروپ کے اہم فیصلوں اور بم حملوں کے حوالے سے فیصلوں میں بھی کردار رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملا عمر کی موت کی تصدیق ہونے کے بعد وہ طالبان کے نئے منتخب امیر ملا اختر منصور کے نائب رہے اور چھ مہینے تک ان کی لیڈر شپ میں وقت گزارا۔
ملا ہبت اللہ کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ملا عمر اور مل اختر منصور کی طرح مضبوط جنگجو کمانڈر نہیں ہیں کیونکہ ان کا پس منظر زیادہ تر مذہبی رہا ہے۔
ملا عمر کی موت کے بعد جنگجوؤں کے درمیان اس گروپ کی لیڈر شپ کے حوالے سے اختلافات کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں اور بعض موقعوں پر ان کے مابین لڑائی کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔
تاہم ملا ہبت اللہ اخونزادہ کے لیڈر بننے کے بعد ملا عمر کے بڑے بیٹے ملا یعقوب کی مدد سے وہ ان گروہوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
امریکہ کے مشہور میگزین ‘فارن پالیسی’ کی یکم جون، 2020 کو شائع ہونے والی خبر میں ایک اہم طالبان کمانڈر مولوی محمد علی جان کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ملا اخونزادہ کرونا کی وجہ سے وفات پا چکے ہیں۔
فارن پالیسی میگزین نے دعویٰ کیا تھا کہ کوئٹہ اور قطر میں، جہاں جنگجو گروپ کا سیاسی دفتر بھی ہے، وہاں بیشتر طالبان رہنماؤں کو کرونا وائرس کا مرض لاحق ہو چکا ہے۔
تاہم دو جون، 2020 کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ملا اخونزادہ اور دیگر اہم رہنماؤں کی ہلاکت سے متعلق خبروں کی تردید کی تھی۔ اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے فارن پالیسی پر الزام لگایا تھا کہ وہ ملا اخونزادہ کے حوالے سے پراپیگنڈہ چلا رہے ہیں۔