ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے سوموار کو راولپنڈی میں ہونے والی میڈیا بریفنگ کے دوران پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی طرف اشارہ کیا تھا۔
پی ٹی ایم پر بیرونی ممالک سے رقم لینے کے الزامات کے بارے میں فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ پی ٹی ایم نے جتنی آزادی لینی تھی وہ لے لی ہے ۔
انہوں نے تاریخ اور سال کا حوالہ دیتے ہوئے پی ٹی ایم سے پوچھا تھا کہ فلاں تاریخوں میں جلسوں کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس سے پیسوں کی وصولی کے بارے میں ان کے پاس کیا جواب ہے؟ اس صورت حال میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت پی ٹی ایم کے خلاف ممکنہ طور پہ کیا قانونی کارروائی کر سکتی ہے؟
حکومت پی ٹی ایم کے خلاف کیا ممکنہ قانونی کارروائی کر سکتی ہے؟
حکومت کے پاس ایسے کون سے ممکنہ قانونی آپشنز موجود ہیں جن کی بنیاد پر وہ یا تو پی ٹی ایم پر پابندی لگا سکے اور یا ان کے کارکنان اور راہنماوں کے خلاف عدالتی کارروائی کر سکے؟
اس سوال کے جواب میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل محمد فہیم ولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مخلتف ایسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت حکومت پی ٹی ایم یا ان کے راہنماوں کے خلاف پرچہ کاٹ سکتی ہے۔
محمد فہیم ولی کے مطابق پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 121 اور 122 کے تحت حکومت پی ٹی ایم کے راہنماوں کے خلاف درج ذیل بنیادوں پر کارروائی کر سکتی ہے:
1: وہ ریاست کے خلاف لوگوں کر بھڑکاتے ہیں۔
2: وہ ریاست کے خلاف جنگ کرنے والوں کے سہولت کار بنتے ہیں۔
محمد فہیم ولی نے بتایا کہ ان دفعات کے اندر اگر الزامات ثابت ہوجائیں تو کسی بھی شخص کو جرمانے سمیت سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
اسی طرح محمد فہیم ولی نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 123 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پی ٹی ایم راہنماوں کے خلاف اس قانون کے تحت بھی کارروائی کر سکتی ہے۔
اس شق میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی ایسی بات کہی یا لکھی جس سے پاکستان کی نظریاتی سرحدات یا خود مختاری کو نقصان پہنچتا ہو توایسے شخص کو جرمانے سمیت دس سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
محمد فہیم ولی نے بتایا کہ ان دفعات کے تحت اگر الزامات ثابت ہوجائیں تو کسی بھی شخص کو جرمانے سمیت سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آئین پاکستان کے تحت حکومت کسی بھی ایسے شخص یا تنظیم کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے جو پاکستان فورسز یا عدالتی اداروں کے خلاف لوگوں کو اکسائے۔
منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی
محمد فہیم ولی سے جب پی ٹی ایم پر لگے بیرونی ممالک کی فنڈنگ کے الزامات کے سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حکومت منی لانڈرنگ قوانین کے تحت پی ٹی ایم راہنماوں کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے اور ان کے خلاف ایف آئی ار درج کی جا سکتی ہے۔
اس قانون کے تحت کسی بھی تنظیم کے اکاونٹس میں بیرونی ممالک سے غیر قانونی طریقے سے رقم کی وصولی ثابت ہو جانے پر قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
محمد فہیم نے بتایا: ’منی لانڈرنگ قوانین کے تحت پوری پی ٹی ایم کی تنظیم کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے اور اس کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے اگر ان پر الزامات ثابت ہوجائیں۔‘
’پارلیمان کے سامنے احتساب کے لیے تیار ہیں‘
اس سارے معاملے پر پی ٹی ایم کے راہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہ رہے ہیں کہ ہم احتساب کے لیے تیار ہیں۔
’احستاب یا کسی بھی انکوائری سے ہم نہیں بھاگتے۔ پارلیمان ہمارا احتساب کرے، پارلیمان کا فیصلہ ہمیں قبول ہوگا۔‘
محسن داوڑ نے پی ٹی ایم پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے الزامات پہلے بھی لگائے گئے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
انہوں نے نقیب محسود،ارمان لونی اور طاہر داوڑ کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ احتساب تو ہم چاہتے ہیں کہ ان مقدمات کی انکوائری کے سلسلے میں بھی کیا جائے۔ لیکن ابھی تک وہ نہیں ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا،’ان الزامات سے پی ٹی ایم کو متنازع بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ریاست کے بیانیے کو جب بھی چینلج کیا گیا ہے تو اس قسم کے الزامات لگنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ احتساب کے لیے ہم تیار ہیں لیکن حکومتی ادارے خود اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کریں۔‘
یاد رہے کہ یہ سارا معاملہ اس وقت ہو رہا ہے جب خیبر پختونخوا حکومت نے وزیر اعلٰی محمود خان کی سربراہی میں قبائلی اضلاع سے ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ پی ٹی ایم کے ساتھ بات چیت کرے تاکہ مسائل افہام وتفہیم سے حل ہو سکیں۔
وزیر اعلٰی کے مشیر برائے قبائلی اضلاع اجمل وزیر سے جب انڈپینڈنٹ نے یہ سوال پوچھا کہ فوج کے ترجمان کے الزامات کے بعد خیبر پختونخوا حکومت کیا پی ٹی ایم کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے تو انہوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کچھ سوال ہے تو اس کا جواب دینے کے لیے وہ حاضر ہیں۔