سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی جمعرات کو سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیے کہ ’افسوس ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے ہی میثاق جمہوریت سے پھرگئیں۔ دونوں جماعتوں نے خفیہ طریقے کار کو ختم کرنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن اب اس پرعمل نہیں کر رہیں۔ میثاق جمہوریت کی دستاویز اب بھی موجود ہے۔‘
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ جمعرات کو ہونے والی سماعت میں ایڈوکیٹ جنرل پنجاب، بلوچستان، سندھ اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے دلائل مکمل کر لیے۔
گذشتہ روز اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کے دلائل مکمل ہوئے تھے۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے اٹارنی جنرل کے دلائل کی تائید کی جب کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے ووٹ کو خفیہ رکھنے اور اوپن بیلٹ کی مخالفت میں دلائل دیے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے ووٹرز کے لیے ہدایت نامے کی کاپیاں عدالت میں جمع کرادیں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے دلائل دیے کہ’ ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ ہونا چاہیے۔ اراکین اسمبلی کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنی پارٹی کے ڈسپلن کی پیروی کریں، اگر رکن اسمبلی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، پارلیمنٹ کے وقار کا تحفظ ضروری ہے۔ اسی وجہ سے اراکین اسمبلی پرکچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ ووٹنگ کے میکانزم میں سیکریسی بھی اس وجہ سے رکھی گئی۔‘
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رکن اسمبلی کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے جواب دیا کہ ’پارٹی کے خلاف ووٹ دینے والے رکن کو اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، نااہلی بھی ہوسکتی ہے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ ’پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر کوئی سزا نہیں، جس کو پارٹی کے خلاف ووٹ دینا ہے کھل کر دے، سزا صرف ووٹوں کی خریدوفروخت پرہوسکتی ہے۔‘
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مزید کہا کہ ’شفافیت کے لیے ہر چیز خفیہ رکھنا لازمی نہیں۔ ماضی میں بھی غیرقانونی طریقے سے مینڈیٹ چوری ہوا۔ آصف علی زرداری نے اب بھی کہا کہ تمام 10 نشستیں جیتیں گے۔ ان کا بیان سیاسی لیکن مینڈیٹ کے برعکس ہے۔ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کےعلاوہ ہر الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہو گا۔‘
اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’آرٹیکل 59 اور 226 کو ملا کر پڑھنا ہوگا۔ خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔‘
ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلطان طالب الدین نے دلائل دیے کہ ’ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی غیرمناسب ہے، ہارس ٹریڈنگ کے شواہد کسی کے پاس نہیں۔ گنتی کے وقت ووٹ کو دیکھا جاتا ہے، تاہم گنتی کے وقت ووٹ ڈالنے والے کا علم نہیں ہوتا۔ آئین ووٹ ڈالنے والوں کی شناحت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ آرٹیکل 226 انتخابات کو خفیہ رکھنے کا پابند کرتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہیے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا: ’کیا کبھی سینیٹ کا الیکشن چیلنج ہوا؟ آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویز ہے۔ آئین کی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کررہی ہوتی ہے۔ کیا الیکشن رزلٹ کےبعد ووٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے؟ کیا ووٹ کی چھان بین کی جاسکتی ہے کہ یہ قانون کے تحت کاسٹ ہوا یا نہیں؟‘
جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ ’بیلٹ پیپر ووٹر کے ہاتھ میں آنے کے بعد اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا، کسی کو اجازت نہیں دیکھے کہ ووٹر نے کس کو ووٹ دیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ووٹ کا اپنا تقدس ہے جس کو مجروح نہیں کیا جاسکتا۔ ووٹ کی خفیہ شناخت کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔‘
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ ’ووٹ کی سیکریسی صرف بیلٹ بکس تک ہوتی ہے۔ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہو تو ٹریبونل یا الیکشن کمشن کیسے دیکھ سکتا ہے۔ شکایت کی صورت میں کیا الیکشن کمیشن ووٹ کی شناخت کرسکتا ہے؟ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ نہیں الیکشن کمیشن ایسا نہیں کرسکتا۔‘
بار کونسلز، جماعت اسلامی اور رضا ربانی جمعہ (19 فروری) کو دلائل دیں گے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ کل ایک گھنٹہ دیگر فریقین کے وکلا کو سنا جائے گا، جس کے بعد کیس کی مزید سماعت جمعے کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دی گئی۔