سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے تحت کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن حکومت بناتا ہے، لیکن آج تک آپ نے نہیں سوچا کہ کیا کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے: ’آپ پورے ملک کی قسمت اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹھے ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس بہت پاورز ہیں۔‘
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے بدھ کو صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ ’الیکشن کمیشن بیلٹ پیپر پر خفیہ بار کوڈ دے سکتا ہے، جو الیکشن کمیشن کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ہوسکے گا۔ ‘
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’یہ سب تب ہو گا جب الیکشن کمیشن کچھ کرے گا۔‘
جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’اگر آپ الیکشن کمیشن کو کہیں گے تو یہ اقدامات کریں گے ورنہ نہیں۔‘
سینیٹ انتخابات میں لین دین سے متعلق اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میں بتا سکتا ہوں کہ اسلام آباد میں کچھ لوگ نوٹوں سے بھرے بیگ لے کر بیٹھے ہیں۔ اس دفعہ ادائیگیوں کاطریقہ کار بدل چکا ہے۔ اب ہنڈی کے ذریعے دبئی میں بھی ادائیگیاں ہو رہی ہیں اور دبئی کی ادائیگیوں کا ریٹ بھی زیادہ ہے۔‘
چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر کو روسٹرم پر بلا لیا
دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا: ’آپ ابھی تک اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے۔ اپنا قانون پڑھ کر آپ سب بتا رہے، بات کی گہرائی سمجھیں۔ سب کو پتہ ہے کہ ہمارے سینیٹ کے انتخابات کیسے ہوتے رہے ہیں۔‘
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے عدالت کو بتایا کہ ’اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی۔‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ اب تک وہی بات کر رہے ہیں جو پہلے دن کر رہے تھے۔‘
اس موقع پر جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن کے پاس اضافی اختیارات ہیں تا کہ آئین خمیازہ نہ بھگتے۔ آئین پورے ملک کی ایگزیکٹیو اتھارٹیز کو پابند کرتا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔‘
دوسری جانب جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت اداروں سے ان کی آئینی ذمہ داریاں پوری کروانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔‘
دوران سماعت الیکشن کمیشن نے اپنا تفصیلی جواب عدالت میں جمع کرایا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ’جواب میں کرپٹ پریکٹس روکنے کے لیے خصوصی اقدامات کا بتایا ہے۔‘
وکیل نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے آن لائن شکایت سننے کا سسٹم شروع کر رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات سے متعلق جو شکایت موصول ہوں ان پر فوری کارروائی ہوتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔گذشتہ روز عدالت نے جو پوچھا تھا اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ’سینیٹ انتخابات آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں۔ خفیہ ووٹنگ میں ووٹ کی تصاویر بنانا جرم ہے اور خفیہ رائے شماری میں ووٹ قابل شناخت نہیں ہوتا۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’آپ تو آج سے قیامت تک سیکریسی کی بات کر رہے ہیں۔ ایسا نہ تو آئین و قانون میں لکھا ہے، نہ ہی ہمارے فیصلوں میں۔ جو خود اَن پڑھ ہیں یا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے مدد لیتے ہیں ان کی سیکریسی کا کیا ہوگا؟ الیکٹرونک ووٹنگ بھی قابل شناخت ہے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید ریمارکس دیے کہ ’سائبر کرائم والوں سے پوچھ لیں ہر میسج ٹریس ہوسکتا ہے۔الیکشن کمیشن اس بات کا جواب دے کہ نمائندگی کے تناسب کا مطلب اور اس کی ضرورت کیا ہے؟‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’قومی اسمبلی انتخابات کے لیے فری ووٹ کی اصطلاح استعمال ہوئی جبکہ سینیٹ انتخابات کے لیے فری ووٹ کی اصطلاح کو شعوری طور پر ہٹایا گیا۔‘
اس موقع پر جسٹس مشیر عالم نے سوال اٹھایا کہ ’سیکریسی کا معاملہ الیکشن ایکٹ میں درج ہے، سوال یہ ہے کہ کس حد تک سیکریسی ہوگی؟‘
جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ’اگر پارٹی نمائندگی کے تناسب سے فیصلہ ہونا ہے تو الیکشن کی ضرورت ہی نہیں، اگر ایسا ہو تو پارٹی فیصلہ کرلے اور باقی آزاد امیدواروں کا الیکشن کروا لے۔‘
بدھ کی سماعت میں اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اپنے دلائل مکمل کر لیے بعدازاں ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخواہ نے مختصر دلائل دیے اور کہا کہ ’عدالت ماضی میں ووٹ خفیہ رکھنے کے معاملے پر فیصلہ دے چکی ہے۔ آئین کی کسی ایک شق کو الگ سے نہیں پڑھا جاسکتا۔ انتحابی عمل کی ہر شق پر عمل پارلیمانی نظام کے مجموعی تناظر میں ہوتا ہے۔‘
ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے باقی تین صوبوں کو جمعرات (18 فروری) کو دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔