سعودی وزارت دفاع نے خواتین کو سلطنت کی مسلح افواج میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اس فیصلے کے بعد اتوار سے ایک پورٹل کے ذریعے مردوں کے ساتھ ساتھ اب خواتین بھی مسلح افواج میں بھرتی کے لیے درخواست دے سکیں گی۔
سپاہی سے لے کر سارجنٹ رینک تک یہ آسامیاں سعودی بری فوج، رائل سعودی ایئر ڈیفنس، رائل سعودی بحریہ، رائل سعودی سٹریٹجک میزائل فورس اور آرمڈ فورسز میڈیکل سروسز میں دستیاب ہوں گی۔
تمام درخواست دہندگان کو لازمی شرائط کے مطابق ایڈمیشن ٹیسٹ پاس کرنا ہوگا، ان کا ریکارڈ شفاف ہونا چاہیے اور سروسز کے لیے ان کا میڈیکل طور پر فٹ ہونا ضروری ہے، لیکن خواتین درخواست دہندگان کے لیے کچھ اضافی شرائط بھی ہیں۔
ان شرائط کے تحت سعودی خواتین درخواست دہندگان کی عمر 21 سے 40 سال کے درمیان ہونی چاہیے، ان کا قد 155 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ ہو اور وہ سرکاری ملازمت نہ کرتی ہوں۔
خواتین درخواست دہندگان کے لیے قومی شناختی کارڈ بھی ضروری ہے اور ان کے لیے کم از کم ہائی سکول تک تعلیمی قابلیت لازمی ہے۔ غیر سعودی شہریوں سے شادی کرنے والی خواتین درخواست دینے کی اہل نہیں ہوں گی۔
پہلی بار مرد درخواست دہندگان کے لیے بھی عمر کی حد 17 سے 40 کے درمیان مقرر کی گئی ہے جبکہ ان کے کم از کم قد کی حد 160 سینٹی میٹر ہے۔
سعودی وزارت کی جانب سے مشترکہ بھرتی کے لیے پیش کی گئی شرائط پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ آپریٹنگ سسٹم کی ماہر ہالہ النبوی نے کہا کہ گذشتہ 30 سالوں سے عرب ممالک میں خواتین کو فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دینا متنازع موضوع رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا: ’لیکن آج سعودی شاہ سلمان کے وژن کے مطابق تمام سرکاری شعبوں کی طرح فوج میں بھی خواتین کو شامل کیا جا رہا ہے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق خواتین کا فوج میں شامل ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ ہمارے قدامت پسند معاشرے میں سرگرم کردار ادا کرسکتی ہیں۔‘
انفارمیشن ٹکنالوجی کی ماہر رحما الخیری کا نقطہ نظر اس سے مختلف ہے۔ انہوں نے کہا: ’پوری (عرب) تاریخ میں ہم نے میدان جنگ میں خواتین کے لڑنے کے بارے میں نہیں سنا۔‘
’ہم ہمیشہ میدان جنگ میں زخمیوں کی دیکھ بھال کرنے والی خواتین کے بارے میں سنتے آئے ہیں۔ خواتین انتظامی امور اور کنٹرول یونٹس میں رسد کی فراہمی کی نگرانی کر سکتی ہیں۔ لیکن میدان جنگ میں صرف مرد ہی لڑا کرتے ہیں۔‘