صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں بھارتی سرحد سے صرف ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع رن آف کچھ سے متصل تحصیل اسلام کوٹ کے گاؤں بھوتاڑو اور سرنگھواری کے قریب پیر (22 فروری) کو نظر آنے والے ایک تیندوے کو مقامی لوگوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تیندوے کو مارنے کے بعد مقامی لوگ اس کے پاؤں باندھ کر اٹھانے کی کوشش کرہے ہیں، تاہم بعد میں محکمہ جنگلی حیات سندھ کی ٹیم نے موقعے پر پہنچ کر تیندوے کی لاش کو تحویل میں لے کر کراچی منتقل کردیا۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق یہ ایک جوان اور نر تیندوا تھا۔ ایک مقامی رہائشی نرسنگھ بھیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'گذشتہ کئی دنوں سے آس پاس کے علاقے میں لوگوں نے تیندوے کے پاؤں کے نشانات دیکھے تھے، جس کی اطلاع محکمہ جنگلی حیات سندھ کو بھی دی گئی تھی، مگر ان کی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پیر کی صبح علاقے میں تندوے کے نظر آنے پر لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق تیندوے نے کئی افراد کو زخمی بھی کیا تھا، جس کے بعد لوگ گھروں سے لاٹھیاں اور کلہاڑیاں لے کر نکل آئے۔ بعد میں سندھ پولیس کے ایک سپاہی نے بندوق سے فائر کرکے تیندوے کو ہلاک کردیا۔‘
نرسنگھ بھیل کے مطابق: ’مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ یہ بھارتی تیندوا تھا جو سرحد پار کرکے پاکستان آگیا تھا۔‘
دوسری جانب محکمہ جنگلی حیات سندھ کے چیف کنزرویٹر جاوید احمد مہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ ایک بھارتی تیندوا تھا اور سرحد پار کرکے پاکستان آیا۔ ‘چند سال قبل سکھر کے نزدیک بھی ایک تیندوا ملا تھا، جس کے لیے بھی لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بھارتی تھا، مگر بعد میں ہمارے محکمے نے سائنسی بنیاد پر پتہ لگایا کہ اس کا تعلق کشمیر سے تھا۔‘
ایک سوال کے جواب میں جاوید احمد مہر نے بتایا کہ چند روز قبل محکمہ جنگلی حیات سندھ کو مقامی لوگوں نے ایک جانور کے پاؤں کے نشانات والی ویڈیو بھیجی تھی مگر وہ نشان تیندوے کے پاؤں کے نہیں تھے۔ محکمہ جنگلی حیات سندھ کی ٹیم مسلسل اس علاقے میں تیندوے کو تلاش کرتی رہی، مگر تیندوا نہ مل سکا، جس کے بعد لوگوں نے نظر آنے پر اسے ہلاک کردیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس سلسلے میں تاحال کوئی کیس درج نہیں ہوا کیوں کہ محکمہ جنگلی حیات سندھ ابھی تک یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ مقامی لوگوں نے اپنے دفاع میں تیندوے کو ہلاک کیا یا اس کا شکار کیا گیا۔‘
بقول جاوید احمد مہر: ’ہلاک ہوجانے والے تیندوے کو ہم کراچی لے آئے ہیں تاکہ ڈی این اے کے ساتھ اس کی کھال کے ڈیزائن اور دیگر اشیا سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ کس نسل کا تیندوا تھا۔ اس کے لیے ہم نے یونیورسٹی آف کیلفورنیا سے بھی رابطہ کیا ہے جبکہ تیندوے کی لاش کو حنوط کیا جائے گا۔‘
جاوید احمد مہر نے مزید بتایا کہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے بعد راجستھان میں اندرا گاندھی کینال بنائی جہاں ہریالی ہونے کے بعد وہاں تیندوے رپورٹ ہوئے ہیں، مگر کینال سے 400 کلومیٹر جنوب میں تیندوے کا ملنا حیرت انگیز بات ہے۔ اس سے پہلے صحرائے تھر میں تیندوا رپورٹ نہیں ہوا۔