سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے پیر کی صبح سینیٹ الیکشن سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انتخابات اوپن بیلٹ پر نہیں ہو سکتے بلکہ خفیہ ہی ہوں گے۔
پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے یہ فیصلہ دیا، جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی فیصلہ دیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی شق 3-218 کے تحت انتخابات کو بدعنوانی سے بچائے اور تمام ادارے الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ٹیکنالوجی سمیت تمام وسائل بروئے کار لا کر انتخابات کروائے، الیکشن کمیشن آئین کے مطابق شفاف انتخابات کروانے کا پابند ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رازداری (’سیکریسی‘) حتمی نہیں ہوتی، اور یہ کہ پارلیمان آئین میں ترمیم کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے بعد اس معاملے پر 19 سماعتوں کے بعد یہ مختصر فیصلہ سنایا ہے، جب کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ہفتے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سماعت کے دوران تبصرہ کیا تھا کہ خفیہ بیلٹ سے متعلق حتمی فیصلہ پارلیمان نے ہی کرنا ہے اور اگر آئین میں خفیہ بیلٹ کا کہا گیا ہے تو ایسا ہی ہو گا۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 کے مطابق ’آئین کے تحت ہونے والے تمام انتخابات، ماسوائے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے، خفیہ رائے دہی کے ذریعے منعقد ہوں گے۔‘ لیکن تحریک انصاف کی حکومت کا خیال تھا کہ خفیہ رائے دہی سے ہارس ٹریڈنگ اور بدعنوانی کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے اس لیے حکومت نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے عدالت سے رائے مانگی تھی کہ کیا سینیٹ الیکشن آئینی ترمیم کے بغیراوپن بیلٹ کے ذریعے ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
’تاریخی فیصلہ‘
مریم نواز نے اس فیصلے کے بعد ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ آئین، ووٹ چوروں کی چالبازیوں،بدنیتی پہ مبنی ریفرنسوں اور سازشی آرڈینینسوں سے بہت بالاتر ہے۔‘
ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ آئین، ووٹ چوروں کی چالبازیوں،بدنیتی پہ مبنی ریفرنسوں اور سازشی آرڈینینسوں سے بہت بالاتر ہے۔اب کھمبے نوچتی کھسیانی بلیاں ٹیکنالوجی کا واویلا کر رہی ہیں۔ یاد رکھو کہ کوئی آر-ٹی-ایس اور ڈسکہ دھند ٹیکنالوجی اب نہیں چلے گی! ووٹ کی طاقت سے ڈرتے کیوں ہو؟
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) March 1, 2021
وفاقی وزیر برائے اطلاعات شبلی فراز نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے۔ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق سینیٹ انتخابات کو صاف اور شفاف بنانے کے لیے تمام تر اقدامات کرے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی شفافیت کا نعرہ لے کر سیاسی میدان میں اتری تھی اور اس کا ہمیشہ سے اداروں کی آزادی پر یقین رہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار حفیظ شیخ انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کریں گے۔
حکومتی ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ اس فیصلے سے عمران خان سرخرو ہوئے ہیں۔
اللہ الحق ہے۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر۔ اللہ نے عمران خان کو سرخرو کیا۔ پہلے کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر لے کر آئے۔ پھر تاریخ کا لمبا ترین دھرنا دیا دھاندلی کے خلاف۔سینیٹ میں ووٹ بیچنے والوں کو پارٹی سے نکالا۔ سینٹ میں ووٹ بیچنے والوں کے خلاف عدالت اور پارلیمان میں پہلی بار جنگ لڑی۔
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) March 1, 2021
فیصلے کا خلاصہ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے تفصیلی رائے میں سینیٹ انتخابات آئین اور قانون کے تحت ہوں گے، اور انتخابات کا شفاف، ایماندارانہ اور منصفانہ انداز میں کروانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کام ہے۔
رائے میں مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن مندرجہ بالا کام آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت کروانے کا پابند ہے، جو پارلیمان کو طاقت دیتا ہے کہ انتخابات میں بدعنوانی روکنے کے لیے آئین کے اندر رہتے ہوئے اور الیکشن کمیشن یا الیکشن کمیشنر کے اختیارات میں دخل اندازی کیے بغیر قانون سازی کرے۔
رائے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 2018(3) کے تحت تمام وفاقی اور صوبائی محکمے یا ادارے شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کو مدد اور معاونت فراہم کریں گے۔
بیلٹ پیپر کی رازداری سے متعلق رائے میں سپریم کورٹ ہی کے 1967 میں دیے گئے ایک فیصلے کا ذکر کیا گیا ہے جس کے تحت بیلٹ پیپر کی رازداری مطلق نہیں ہے اور اس پر مثالی اور مطلق انداز میں انداز میں عمل کرنے کے بجائے انتخابی عمل کی ضروریات کے مطابق عملی طور پر دیکھا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں مزید کہا کہ انتخابات کو شفاف، ایماندارانہ اور منصفانہ بنانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین اور قانون کے تحت تمام دستیاب اقدامات اور سہولتیں بشمول ٹیکنالوجی استعمال کرنے گا اور یقینی بنائے گا کہ بدعنوانی کو روکا جا سکے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا: ’۔۔۔آئین کے آرٹیکل 186 کی رو سے صدر پاکستان کا اس ریفرنس میں پوچھا گیا سوال قانونی نہیں ہے، اور اسی لیے بغیر کسی جواب کے واپس بھیجا جا رہا ہے۔‘