میگزین ’ووگ عربیہ‘ کو گزشتہ ماہ اپریل میں دیے گئے ایک انٹرویو میں امریکی کانگریس کی مسلمان رکن الہان عمر نے کہا تھا: ’میرے لیے حجاب کا مطلب طاقت، آزادی، خوبصورتی اور مزاحمت ہے۔‘ ایسی خواتین کے طور پر، جنہیں ایران میں حجاب کی لازمی پابندی کرنی پڑتی تھی، اس تحریر کے ذریعے ہم اس الجھے ہوئے مسئلے کا ایک اور رخ سامنے لانے کی کوشش کریں گے۔
حجاب دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو خواتین اپنی مرضی سے کرتی ہیں اور دوسرا وہ جو ان کو زبردستی پہننا پڑتا ہے۔
پہلی قسم کے حجاب میں خواتین مکمل طور پر با اختیار ہوتی ہیں، ان کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ حجاب میں کتنی زاہدانہ یا خوبصورت لگنا چاہتی ہیں۔ وہ چاہیں تو اس کے ساتھ میک اپ، بناؤ سنگھار اور فیشن ایبل لباس بھی پہن سکتی ہیں۔
دوسری قسم کے حجاب میں خواتین کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ ہم جہاں رہتے تھے وہاں حجاب کا نفاذ ایرانی حکومت کی طرف سے ایک سخت ڈریس کوڈ کے تحت ہوتا تھا، جس کے مطابق خواتین کو عوامی مقامات پر بناؤ سنگھار کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور ان پر پینٹ اور بند جوتوں کے اوپر ٹخنوں تک لمبا اور ڈھیلا کُرتا پہننا لازمی تھا، جو ان کے جسم کے خدوخال کو مکمل چھپا لیتا تھا۔ کچھ عرصے کے لیے تو حکام نے وہ رنگ بھی مقرر کر رکھے تھے جو خواتین کو پہننے کی اجازت تھی، یعنی سیاہ، سلیٹی، بھورا اور گہرا نیلا رنگ۔
برسوں سے نوجوان ایرانی خواتین نجی طور پر اس سخت طرزِ حجاب میں تبدیلی کرنے میں کامیاب ہوتی آرہی ہیں اور حکومتی سختی کم ہوئی ہے مگر قانون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اسے زبردستی لاگو کیا جاتا رہا ہے۔ ایک اچانک چھاپہ بہت سی گرفتاریوں کا سبب بن سکتا ہے۔
اس وقت افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا اور طالبان سے جاری مذاکرات نے خواتین کو خوف زدہ کر رکھا ہے کہ کہیں وہی گروپ واپس اقتدار میں نہ آجائے، جس کے دور میں خواتین پر برقع کی پابندی لازمی تھی۔ یہ ایرانی حجاب سے بھی ایک قدم آگے تھا جس میں خواتین پر چہرہ ڈھانپنے کی بھی پابندی تھی۔
سعودی عرب میں ایسے عبایہ اور نقاب، جو صرف خواتین کی آنکھیں ظاہر کرتے ہیں، کی قانونی پابندی تو نہیں ہے لیکن معاشرتی طور پر اسے پہننا تقریباً لازمی ہی سمجھا جاتا ہے۔
خواتین جو اس طرح کے جبری حجابوں میں زندگی بسر کرتی ہیں، ایک طرح سے صنفی عصبیت کے ماحول میں رہتی ہیں۔ اس طرح کے غلاف خواتین کو معاشرے میں کم تر شہریوں کا درجہ دیتے ہیں، ایسی شہری جو قانونی اور معاشرتی طور پر کم تر ہوں۔
ایران میں خواتین پر اکیلے سفر کرنے کی، طلاق لینے کی یا کھیل کے میدانوں میں جانے پر پابندی ہے۔ خاتون کی گواہی کو اکثر مقدمات میں مرد کے مقابلے میں آدھی گواہی تصور کیا جاتا ہے۔ حجاب کی پابندی نہ مذہبی ہے نہ روایتی بلکہ یہ خواتین پر ظلم جاری رکھنے کے لیے ایک طاقتور آلہ ہے۔
خواتین ان پابندیوں کے خلاف بغاوت کررہی ہیں۔ سعودی عرب میں لوجين الہذلول اور دیگر بہت سی خواتین کارکنوں کو برابری کے حقوق حاصل کرنے کے لیے کام کرنے پر جیل بھیج دیا گیا۔ ایران میں وائٹ ویڈنس ڈیز (White Wednesdays) مہم سالہا سال سے جاری ہے جس میں جوان اور بوڑھی خواتین ننگے سر سڑکوں پر سفید حجاب لہرا کر حجاب کی پابندی کے قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گرفتاری اور قید کا خطرہ مول لیتی ہیں۔
یہ خواتین حجاب کے خاتمے کا مطالبہ نہیں کر رہیں بلکہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ انہیں ان کی مرضی سے پہننے کا حق ہو۔ یہ اس طرح کی آزادی کی بھوک ہے جو امریکی جمہوریت کی سنگ بنیاد ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمیں خوشی ہے کہ الہان عمر حجاب پہننے کے حق کو فخر سے استعمال کرتی ہیں۔ اس دور میں جب قوم اور نسل پرستی کا رحجان امریکہ اور دوسرے ممالک میں ابھر رہا ہے، یہ ضروری ہوگیا ہے کہ خوفزدہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوا جائے۔ اس تناظر میں، ہم پورے خلوص کے ساتھ مغرب میں اپنی مسلم بہنوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی خود مختاری کے ہامی ہیں۔
اس کے بدلے میں ہم دنیا بھر میں اپنی بہنوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ایرانی خواتین کے ساتھ کھڑی ہوں جو اپنے ملک میں حجاب کی پابندی کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ ہماری گزارش ہے کہ امریکی خواتین ایران کی نامور انسانی حقوق کی وکیل نسرین سوتودہ کے حق میں کھڑی ہوں جنہیں حجاب کی پابندی کے خلاف پُر امن مظاہرہ کرنے والی خواتین کا دفاع کرنے کے جرم میں 38 سال کی قید اور 148 کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے۔
جس طرح امریکیوں کے لیے شدت پسندوں اور عام مسلمانوں کے مابین فرق کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ پُر امن مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے، اسی طرح ان کے لیے یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ تمام حجاب ایک جیسے نہیں ہوتے۔
الہان عمر اور دیگر مسلمان خواتین جن کو امریکہ میں مکمل آزادی حاصل ہے، حجاب کے سلسلے میں آواز اٹھانے کے لیے بہتر مقام پر ہیں۔
حجاب بذات خود تومحض ایک کپڑے کا ٹکڑا ہے، مگر جبر اسے ظلم کی ایک علامت بنا دیتا ہے۔ یہ جمہوریت ہی ہے جو مختلف ہونے کو گلے لگاتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو حجاب کو اپنی مرضی سے پہننے والوں کے لیے خوبصورتی یا طاقت کی علامت میں بدل دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسیح علی نژاد کتاب ’دا وینڈ اِن مائے ہیئر: مائی فائٹ فار فریڈم اِن ماڈرن ایران‘ کی مصنفہ ہیں اور ایران میں وائٹ ویڈنس ڈیز مہم کی بانی ہیں جبکہ رویا حکاکین ایران ہیومن رائٹس ڈاکیومینٹیشن سینٹر کی شریک بانی ہیں اور ’جرنی فرام دا لینڈ آف نو: آ گرل کوٹ اِن ریولوشنری ایران‘ کی مصنفہ ہیں۔