ہر سال کی طرح جہاں عورت مارچ کے منتظمین آٹھ مارچ کو خواتین کے حقوق کے لیے مارچ کرنے کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں وہیں میڈیا بھی اس دن کے انتظار میں ہے۔
تاہم گذشتہ سالوں کے برعکس اس سال عورت مارچ لاہور کی کوریج کے لیے مارچ کے منتظمین نے میڈیا گائیڈ لائنز جاری کی ہیں، جن کے مطابق کوریج کے لیے صحافی کے پاس عورت مارچ کی طرف سے جاری کردہ ایک میڈیا پاس/کارڈ ہونا ضروری ہے۔
اس حوالے سے عورت مارچ لاہور کی جانب سے جاری کردہ اشتہار میں لکھا گیا ہے کہ اگر ’آپ یا آپ کا میڈیا ہاؤس عورت مارچ کو کور کرنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کو میڈیا پاس کی ضرورت ہو گی۔ عورت مارچ پر آنے والے صحافی کے پاس کوریج کا پاس ہونا لازمی ہے ورنہ انہیں عورت مارچ کور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ میڈیا ہاؤسز اس مارچ کو کور کرنے کے لیے خواتین صحافی اور فوٹو گرافر بھیجنے کو ترجیح دیں۔ اگر میڈیا ہاؤس کے پاس خواتین کی تعداد کم ہے تو کوشش کریں کہ کوریج کے لیے صنفی توازن کو مد نظر ضرور رکھیں۔
اشتہار کے مطابق اگر کسی میڈیا ہاؤس کے پاس کوئی بھی خاتون رپورٹر نہیں تو وہ مرد رپورٹر اور فوٹو گرافر کو بھیج سکتے ہیں لیکن اس میڈیا ہاؤس کو صنفی توازن کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔
صحافیوں کو یہ تنبیہہ بھی کی گئی ہے کہ اگر وہ مارچ کے دوران کسی شرکا کو ہراساں کرتے پائے گئے یا ان سے بدتمیزی کی، ان کی پرائیویسی پر حملہ کیا، یا ان کی اجازت کے بغیر کوئی کارروائی کرتے پائے گئے تو عورت مارچ ان کے خلاف کارروائی کا حق رکھتا ہے۔
عورت مارچ لاہور نے صحافیوں کے لیے ایک آن لائن فارم بھی پر کرنے کے لیے جاری کیا ہے جسے بھرنے کے بعد آپ کو میڈیا پاس ملے گا۔
عورت مارچ لاہور کی رضا کار فاطمہ رزاق نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ یہ گائیڈ لائن یا پالیسی جاری کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ گذشتہ مارچوں کے دوران منتظمین کو ’ایک شکایت بہت زیادہ موصول ہوئی کہ کچھ صحافی، بلاگرز اور یو ٹیوبرز نےمارچ کے شرکا کو باقاعدہ ہراساں کیا۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں کے نام سے غلط باتیں چلا دیں، کچھ شرکا کی اجازت کے بغیر ان کی تصاویر لے لیں اور پھر ان پر غلط انداز میں تبصرے کیے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ نیوز، یو ٹیوب چینلز اور دیگر سماجی رابطوں کی سائٹس پر ان تصاویر کو فوٹو شاپ کر کے بھی غلط انداز میں استعمال کیا گیا۔ اور میڈیا کی طرف سے کوئی نگرانی نہیں کی گئی کہ ان تصاویر کو دکھانے سے پہلے فیکٹ چیک ہی کر لیتے۔‘
فاطمہ نے کہا کہ آزادی صحافت اور آزادی اظہار میں معمولی سا فرق ہے۔ ’ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے شرکا ہراساں محسوس کریں اور پھر ان کا پیچھا بھی کیا جائے۔ شرکا مارچ میں آنے سے گھبرانے لگتے ہیں کیونکہ گذشتہ مارچوں میں تو کچھ کا کیمروں کے ساتھ پیچھا بھی کیا گیا حالانکہ انہوں نے بتا دیا تھا کہ وہ بات نہیں کرنا چاہتے۔‘
فاطمہ کے خیال میں عورت مارچ کی کوریج کے دوران بنیادی صحافتی اخلاقیات کا خیال نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ برس ہمارا منشور معاشی پالیسی پر تھا لیکن صحافیوں کو معلوم ہی نہیں تھا۔‘
انہوں نے کہا: ’ہم جب اس پر بات بھی کرتے تھے تو آگے سے صرف یہ سوال ہوتے تھے کہ آپ کس کے ایجنٹ ہیں؟ آپ کو فنڈنگ کہاں سے آرہی ہے؟ یا ’میرا جسم، میری مرضی‘ کے نعرے کی صفائی پیش کریں۔ چیزوں کو توڑ موڑ کر پیش کرنے اور دو لوگوں کو لڑوانے والی میڈیا پالیسی نے ہماری تحریک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔‘
فاطمہ رزاق کہتی ہیں کہ ’اس بار صحافیوں کے لیے پالیسی کا مقصد یہ تھا کہ ہم ایک مرتبہ دیکھ لیں کہ کس طرح کے چینلز اور صحافی آرہے ہیں۔ اور یہ کہ مارچ سے قبل اگر ہو سکے تو ہم ان کے ساتھ جینڈر سینسٹیوٹی پر کوئی تربیتی پروگرام کر لیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ کس طرح کے سوال پو چھے جاتے ہیں؟‘
ان کے بقول اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ عورت مارچ میں خواتین صحافیوں کی نمائندگی ہو، اور میڈیا ہاؤسز کو موقع ملے یہ دیکھنے کا کہ ان کے پاس کتنا صنفی توازن ہے۔
فاطمہ کا کہنا تھا: ’چونکہ یہ ایک عوامی مارچ ہے اس لیے ہمارے لیے یہ بہت چیلنجنگ ہوگا کہ ہم ان صحافیوں کو اندر نہ آنے دیں جن کے پاس عورت مارچ کی طرف سے جاری کردہ پریس پاس نہیں ہیں۔ البتہ ہم وہاں اعلان کرتے رہیں گے کہ شرکا پریس پاس کے بغیر والے صحافیوں سے بات کرنے سے اجتناب کریں۔ گذشتہ برس بھی ہم نے بہت سے ایسے لوگوں کی جانب سے شکایات ایف آئی اے میں درج کروائیں جن کی تصاویر یا باتوں کو غلط رنگ دیا گیا تھا۔ لوگوں کو ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ہیلپ لائن کی طرف بھیجا اور دیگر مختلف طریقوں سے بھی ان قانونی معاونت فراہم کی۔‘
عورت مارچ کی اس کوریج پالیسی کے حوالے سے ’ہم نیوز‘ کے لاہور بیورو چیف شیراز حسنات نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میں اس پالیسی سے کچھ حد تک متفق ہوں بھی اور نہیں بھی۔ یہ بات درست ہے کہ کچھ چینلز میں خواتین صحافی یا رپورٹرز نہیں ہیں۔ ایسا کسی میڈیا پالیسی کے تحت نہیں ہے بلکہ کچھ چینلز کی انتظامیہ پیسے بچانے کے لیے ایسا کرتی ہے۔ یا پھر اگر کوئی نوکری چھوڑ کر چلا گیا ہے تو اس کی جگہ کسی اور کو نہیں رکھتے۔ لیکن عورت مارچ پر صرف خواتین کو بھیجنا میری سمجھ سے باہر ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’ہاں میں ان کی اس بات سے متفق ہوں کہ بہت سے یو ٹیوبرز یا دیگر جعلی صحافی مارچ میں آتے ہیں اور شرکا کو ہراساں کرتے ہیں، ہم نے ایسے کلپس بھی دیکھے۔ لیکن یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ عورت مارچ ایک کھلی سڑک پر ہو رہا ہے۔ اس بات کی یقین دہانی کیسے کریں گے کہ وہاں صرف وہ آئیں جن کے پاس پریس پاس ہے۔ میرا نہیں خیال کہ انہیں میڈیا کو روکنا چاہیے، میرے خیال میں ان کی یہ میڈیا پالیسی تھوڑی سی کنفیوزنگ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مت بھولیں کہ عورت مارچ میں مرد بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہ پالیسی مردوں کے لیے تھوڑی توہین آمیز بھی ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کو آپ کی مرضی کی کوریج ملے۔ انہیں چاہیے کہ یہ کوریج کو اوپن رکھیں۔ ہاں میڈیا کی جانب سے شرکا کو ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے۔ میڈیا کو جو خبر ہے اسے بغیر تبدیل کیے پیش کرنا چاہیے نہ کہ اپنی مرضی کے ذاتی تبصرے کیے جائیں۔‘
ایک نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر طلحہ سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے گذشتہ برس بھی عورت مارچ کور کیا تھا اور اس سال بھی کریں گے۔
ان کا کہنا تھا: ’میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ایک طرف تو خواتین مردوں کی برابری کے لیے مساوی حقوق مانگتی ہیں اور ان حقوق کے لیے مارچ بھی کرتی ہیں اور دوسری جانب ان کا مطالبہ ہے کہ مارچ کو صرف خواتین کور کریں اور مرد نہ آئیں۔ یہ کیسی برابری ہے؟‘
طلحہ سعید نے کہا: ’جہاں تک چینلز میں صنفی تناسب کی بات ہے تو میں اس سے متفق ہوں لیکن چینلز نے اپنی مالی پوزیشن بھی دیکھنی ہے یہ ان کی صوابدید ہے کہ وہ اپنے ادارے میں کس طرح لوگ بھرتی کرتے ہیں۔ اس پر ایک نجی سطح کی تنظیم انہیں کیسے بتا سکتی ہے کہ وہ کسے رکھیں اور کسے نہ رکھیں؟‘
’اے آر وائے‘ کی سینئیر صحافی اور پروڈیوسر رابعہ نور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میڈیا میں رپورٹرز کی ڈیوٹیاں لگتی ہیں، بے شک عورت مارچ کے لیے ترجیح خاتون صحافی کو دی جاتی ہے لیکن بعض اوقات ایسا ممکن نہیں ہو پاتا۔ جو اس وقت سپاٹ کے قریب ہو اسی کو وہاں بھیج دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’مجھے نہیں لگتا کہ اس پالیسی پر اتنا زیادہ عمل ہوگا کیونکہ چینلز کی ڈی ایس این جیز بھی آئی ہوتی ہیں، لائیو کوریج چل رہی ہوتی ہے، ہر طرح کا سٹاف وہاں موجود ہوتا ہے جو اپنے حساب سے تصویریں بھی کھینچ رہا ہوتا ہے اور وہ عورت مارچ کے نعروں اور تصاویر کو اپنے ذہن کے مطابق پیش کرتے ہیں۔‘
رابعہ نور کے بقول: ’مرد رپورٹرز کو عورت مارچ میں جانے کا کافی شوق ہوتا ہے۔ خاص طور پر عورت مارچ میں جو پلے کارڈز یا نعرے ہوتے ہیں وہ انہیں بہت اپیل کرتے ہیں۔ وہ ان پر اپنی خبریں بناتے ہیں، وہ خبر چینل کی پالیسی کے مطابق نشر ہو یا نہ ہو۔ لوگ اسے اپنے ذاتی فیس بک پیج یا یو ٹیوب پر چلانے اور وائرل کرنے کے لیے بھی مارچ میں جانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں صرف خواتین صحافیوں کو ترجیح دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عورت مارچ کی خواتین اپنے حقوق کے لیے جو بھی پلے کارڈ یا نعرہ بلند کرتی ہیں ان کا غلط مطلب نکال لیا جاتا ہے۔ اسی خدشے سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہوگا۔‘
’کیپیٹل ٹی وی‘ کی نمائندہ خصوصی کرن بٹ نے بھی گذشتہ برس عورت مارچ کور کیا تھا۔ انہوں نے بتایا: ’وہاں آنے والے کئی مرد صحافی اپنی پدرسری سوچ کے ساتھ وہاں کوریج کے لیے آئے تھے۔ میں نے خود کوریج کے دوران ایسے مرد صحافیوں کو دیکھا جو خواتین سے ایسے سوال کر رہے تھے کہ کیا آپ کے گھر میں مرد نہیں ہیں؟ کیا آپ اپنے باپ اور بھائی سے بھی نفرت کرتی ہیں؟ یہ وہ صحافی ہیں جو اپنی پسند کی سیاسی پارٹی کی پریس کانفرنس پر جائیں تو وہاں جوابی سوال نہیں کرتے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’میں مانتی ہوں کہ شاید یہ ممکن نہیں ہوگا لیکن میں صنفی توازن کے حق میں ہوں۔ میڈیا ہاؤسز میں خواتین صحافی بہت کم ہیں۔ جو چند خواتین ہیں وہ یا تو ڈیسک پر ہوتی ہیں یا مارکیٹنگ وغیرہ میں۔ صرف ایک یا دو خواتین بیورو چیف کی پوسٹ پر ہیں ورنہ کسی بڑی پوزیشن پر خواتین نظر نہیں آتیں۔‘
کرن بٹ کے بقول: ’سیاسی بیٹ کے لیے بھی مردوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے، اس لیے عورت مارچ کا یہ بہت اچھا قدم ہے کہ انہوں نے صنفی توازن کی بات کی ہے۔ مرد صحافیوں کو بھی عورت مارچ کور کرنے کے لیے آنا چاہیے لیکن انہیں چاہیے کہ وہ ایک ذہن بنا کر نہ آئیں کہ یہ تو میرا جسم میری مرضی والی بریگیڈ ہے اور یہ دیگر عورتوں کو خراب کرنےکے لیے نکلیں ہیں اور اگر یہی ذہن بنا کر مرد صحافیوں نے آنا ہے تو بہتر ہے کہ وہ عورت مارچ پر نہ آئیں۔‘