پشاور میں اپنی نوعیت کے پہلے سائیکل شیئرنگ منصوبے کا آغاز کے لیے شہر کے مختلف مقامات پر چین سے منگوائی گئی کُل 360 میں سے 220 سائیکلیں سٹیشنز پر کھڑی کر دی گئی ہیں۔
پشاور میں ’زو بائیسکل‘ کا انتظام سنبھالنے والے ادارے ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سائیکل سروس کے لیے انہوں نے کرائے کے تین پیکج مرتب کیے ہیں، جن کے مطابق آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے تک سائیکل کا کرایہ 20 روپے، ڈیڑھ گھنٹے تک کا 30 روپے، دو گھنٹوں کا 40 روپے اور اس سے زائد استعمال کرنے کا کرایہ 60 روپے ہو گا۔
سائیکل شئیرنگ سسٹم کے لیے 25 سے زائد ‘ڈاکنگ’ سٹیشن تیار کیے جا چکے ہیں جب کہ باقی سات سٹیشنوں پر کام جاری ہے۔ عمیر کے مطابق، ‘زو بائیسکل’ استعمال کرنے کے لیے ممبر شپ لازمی ہے جس کی فیس پاکستانیوں کے لیے تین ہزار اور غیر ملکیوں کے لیے پانچ ہزار روپے ہے۔
رجسٹریشن کے لیے تصدیق شدہ شناختی کارڈ کی کاپی اور بائیومیٹرک تصدیق لازمی ہو گی۔ علاوہ ازیں، ممبر شپ حاصل کرنے کے لیے پہلے سے متعین کردہ قواعد و ضوابط کی قبولیت بھی لازمی شرط ہے۔
اس منصوبے کے حوالے سے عام تاثر ہے کہ یہ پشاور جیسےشہر میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ ناقدین کے مطابق پشاور میں سائیکل کے لیے مخصوص راستوں کی عدم دستیابی، ٹریفک قوانین کی عدم موجودگی ، موجودہ قوانین کی خلاف ورزی، سائیکل سواری کی غیر مقبولیت، شعور کی کمی اور غربت اور پسماندگی، یہ وہ عوامل ہیں جو اس منصوبے کو ناکام بنا سکتے ہیں۔
عام شہریوں کے خیال میں مذکورہ حالات میں ٹرانس پشاور کی انتظامیہ کے لیے سائیکلوں کی حفاظت کیسے ممکن ہو گی اور خدشہ ہے کہ اگر بی آر ٹی جیسے کارڈز زو بائیسکل کے لیے بھی جاری کر دیے گئے تو ہو سکتا ہے کہ گم شدہ یا چوری شدہ کارڈ کا کوئی غیر قانونی استعمال کرے۔
ان سوالات کے جواب میں عمیر نے بتایا کہ زو بائیسکل کے کارڈ کا طریقہ بی آر ٹی کارڈ سے مختلف ہے۔ ’ان سائیکلوں میں ٹریکنگ چپس، سائیکل کی رجسٹریشن نمبر، بائیومیٹرک تصدیق، شناختی کارڈ کی تصدیق شدہ کاپی جیسے اقدامات کے ذریعے سائیکلوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترجمان کے مطابق 72 گھنٹے یعنیٰ تین دن بعد سائیکل واپس نہ کرنے کو سائیکل چوری سمجھا جائے گا اور سائیکل واپس نہ کرنے والے رجسٹرڈ صارف کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کارڈ گم ہونے یا چوری ہونے کی صورت میں صارفین کو فوراً اسے بلاک کرنا چاہیے تاکہ کوئی اس کا غیر قانونی استعمال نہ کر سکے۔
ٹرانس پشاور کے ترجمان کا کہنا ہے کہ زو سائیکلوں کو پشاور کی تمام سڑکوں پر چلایا جا سکے گا اور انہیں پورے شہر میں چلانے کی اجازت ہوگی۔ ادارہ اس کی مانیٹرنگ سائیکلوں میں لگی چپس کے ذریعے کر سکے گا۔
سائیکل شئیرنگ کا آئیڈیا اگرچہ پاکستان میں نیا ہے، تاہم مغربی ممالک میں یہ کافی پرانا ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں لوگ سائیکل شئیرنگ کے استعمال سے بخوبی آشنا ہیں اور اپنے روزمرہ کے کاموں اور سیاحت وتفریح کے لیے کرایے کے سائیکلوں کا استعمال کرتے ہیں۔
اٹلی، پیرس، بیجنگ، ووہان، لندن، بارسلونا، نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی جیسے بڑے شہروں میں سائیکل شئیرنگ کے منصوبے کافی مقبول ہیں۔