وزیر اعظم عمران خان آج (ہفتے کو) پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر رہے ہیں، جب کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) نے اس موقع پر اجلاس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں دوپہر 12:15 پر شروع ہونے والے خصوصی اجلاس میں وفاقی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم پر آئین کی شق (7)91 کے تحت اعتماد کے ووٹ کے لیے قرار داد پیش کی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی بینچوں پر حکومتی اور اتحادی ارکان کے 177 ارکان براجمان ہیں جب کہ اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
اسلام آباد کے صحافی ذیشان حیدر کا خیال ہے: ’اس مشق کا واحد مقصد یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ انتخابات میں جیت سے حکومت کو پہنچنے والے دھچکے کے اثرات کو زائل کرنا ہے، اس کی کوئی دوسری وجہ نہیں ہو سکتی۔‘
وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا: ’عمران خان وہ واحد وزیر اعظم ہیں جو بغیر کسی ضرورت کے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے جا رہے ہیں، یہ ایک نڈر اور دلیر لیڈر ہی کر سکتا ہے۔‘
اعتماد کا اظہار ہو گا؟
قرار داد پر اوپن بیلٹ کے ذریعے ووٹنگ ہو گی، جس میں اگر 172 اراکین قومی اسمبلی حق میں کھڑے ہو گئے تو وزیر اعظم پر اعتماد کا اظہار ہو جائے گا، بصورت دیگر بقول وزیر داخلہ شیخ رشید ’وفاقی حکومت ختم ہو جائے گی۔‘
یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز کی تعداد 180 ہے، لیکن سپیکر اسد قیصر کا تعلق حکومتی جماعت سے ہے اس لیے وہ اجلاس کی صدارت کریں گے اور ووٹنگ میں حصہ نہیں لے سکیں گے، اس لیے حکومتی نشستوں پر 179 اراکین کو موجود ہونا چاہیے۔
جمعے کو وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد میں ایک مصروف دن گزارا جب انہوں نے حکومتی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ دیا، جس میں حکومتی عہدیداروں کے مطابق ایک آدھ کو چھوڑ کر تمام ایم این ایز موجود تھے۔
وزیر اعظم اور ان کے قریبی وفاقی وزرا نے اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں اور ان سے آج کے اجلاس میں اعتماد کے ووٹ کی حمایت کی یقین دہانی مانگی۔
سینئیر صحافی مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
صحافی محمل سرفراز کا کہنا تھا کہ کمزور حکومت کے سربراہ ہونے کے باوجود عمران خان کو اعتماد کا ووٹ مل جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت کے اگلے ڈھائی سال بہت اہم ہوں گے کیونکہ اس کی کارکردگی اب تک بہت خراب رہی ہے۔
ذیشان حیدر نے بھی اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں اعتماد کے ووٹ سے متعلق قرارداد آسانی سے منظور ہو جائے گی۔ ’تحریک انصاف اور اتحادیوں کی قومی اسمبلی میں تعداد اتنی ہے کہ یہ کام ہو جائے اور جب انہیں روکنے والا بھی کوئی نہیں۔‘
تاہم ان کا خیال تھا کہ اس اعتماد کے ووٹ کی اہمیت محض علامتی اور سیاسی ہی رہے گی، اس سے حکومت یا عمران خان کو کچھ زیادہ حاصل نہیں ہو گا۔
اسلام آباد کے ایک دوسرے صحافی نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کے ایم این ایز نے دراصل عمران خان کے نامزد کردہ امیدوار عبدالحفیظ شیخ کی مخالفت کی تھی جب کہ آج وزیر اعظم کے حق میں ووٹ دینا ہے جس کی حمایت پی ٹی آئی کے تمام اراکین کریں گے۔
فلور کراسنگ ہو سکتی ہے؟
تحریک انصاف نے جمعے کو اپنے تمام ایم این ایز کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں انہیں ہفتے کے اجلاس میں موجودگی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
خط میں واضح کیا گیا ہے کہ اعتماد کے ووٹ سے متعلق قرارداد کی مخالفت کرنے یا دور رہنے والے پی ٹی آئی ایم این اے کے خلاف نا اہلی کی کاروائی کی جا سکتی ہے۔
دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے جمعے کے عشائیے میں مبینہ طور پر سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ نہ دینے والے ایم این ایز کو اعتماد کے ووٹ کی حمایت کے بدلے تادیبی کاروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، تاہم حکومتی عہدیدار اس کی تردید کرتے ہیں۔
ویب سائٹ ’ہم سب‘ کے ڈائریکٹر نیوز محمد آصف میاں (وسی بابا) کے خیال میں اپوزیشن کی غیر موجودگی میں فلور کراسنگ کا سوال ہی ختم ہو گیا ہے۔ ’نہ وہ ایوان میں آ رہے ہیں نہ کسی کو روکنے کی کوشش کریں گے تو حکومتی اتحاد کے ایم این ایز کیوں فلور کراسنگ کریں گے؟‘
یاد رہے کہ آئین پاکستان کے تحت اپنی پارٹی کی مخالفت کی صورت میں کسی ایم این اے کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔
قانونی حیثیت
قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کی وجہ ضرورت سے زیادہ رازداری ہے۔
قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ کے آرڈر آف دی ڈے کے علاوہ وزیر اعظم ہاوس کی جانب سے جانے والی سمری اور صدر کا نوٹیفیکیشن ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔
صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اس سلسلے میں صدر کو جانے والی سمری اور ان کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن موجود نہیں ہیں جس سے شکوک و شہات جنم لے رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کے آرڈر آف دی ڈے کے مطابق وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل (7)91 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کریں گے۔
سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان عرفان قادر نے اس طریقہ کار کو قطعی طو پر غیر قانونی اور غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل (7)91 میں صدر اپنے طور پر وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی ہدایت کرتے ہیں، جبکہ یہاں وزیر اعظم نے ایوان سے اعتماد حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آئین جب کوئی طریقہ کار وضع کر دے تو اس سے ہٹا نہیں جا سکتا۔
جسٹس (ر) شائق عثمانی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے صدر کو کہنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ’انہوں نے جان بوجھ کر مصیبت مول لی ہے۔‘
ذیشان حیدر نے کہا کہ آرٹیکل (7)91 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل ہونے کی صورت میں آئندہ چھ ماہ تک مزید اعتماد کا ووٹ لینا ضروری نہیں ہوتا۔ ’عمران خان اسے (7)91 کا رنگ دے کر خود کو کچھ عرصے کے لیے محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہو سکتا ہے عمران خان یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کو اکثریت حاصل ہے یا نہیں، کیونکہ آج اگر ان کی حمایت کرنے والے 180 اراکین نہیں آتے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وزیر اعظم ایوان کی اکثریت سے محروم ہو چکے ہیں۔‘
حزب اختلاف کا بائیکاٹ
اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آج کے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں اس اجلاس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی جنرل سیٹ پر یوسف رضا گیلانی کی کامیابی ہی قومی اسمبلی کا وزیر اعظم عمران خان پر عدم اعتماد کا اظہار تھا۔
تاہم حزب اختلاف کے رہنما قومی اسمبلی کے بائیکاٹ سے متعلق فیصلے کی منطق کے بارے میں سوالات ٹالتے رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما محمد زبیر کا کہنا تھا کہ عمران خان پہلے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے والے ایم این ایز کو پارٹی سے نکالیں اور پھر اعتماد کا ووٹ لیں۔
تاہم بعض تجزیہ کار اپوزیشن کے قومی اسمبلی کے بائیکاٹ کو ایک بہتر حکمت عملی قرار دیتے ہیں۔
آصف میاں کہتے ہیں: ’حزب اختلاف حکومتی گراؤنڈ پر آ کر لڑنا نہیں چاہتی، بلکہ وہ اپنے طریقے سے اس لڑائی کو آگے بڑھائیں گے۔‘
ان کا خیال تھا کہ ’پی ڈی ایم کی اکثر جماعتیں حکومت کو ہٹانا نہیں چاہتیں کیونکہ اس وقت کسی بھی جماعت کے لیے حکومت چلانا مشکل ہو گا۔ 4900 ارب روپے کے بجٹ خسارے کے ساتھ کون حکومت کو چلا پائے گا؟ اپوزیشن صرف معاملات کو گرم رکھنا چاہتی ہے تاکہ عمران خان پر دباو برقرار رہے۔‘
مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے اعتماد کا ووٹ ایوان سے لینا ہے نہ کہ پی ڈی ایم یا حزب اختلاف سے، اس لیے ان کا ایوان میں آنا یا نہ آنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔