خطروں کے باوجود اپنے خوابوں کے پیچھے دوڑتی افغان پناہ گزین اور میڈیکل ورکر 21 سالہ مرضلا نے اہل خانہ اور برادری کو قائل کر ہی لیا کہ خواتین معاشرے میں روایت سے ہٹ کر بھی کردار ادا کر سکتی ہیں۔
کوئٹہ کے ایک چھوٹے سے کلینک میں ایک نوجوان لڑکی میڈیکل گاؤن اور سرجیکل ماسک میں ملبوس تیزی سے کام کر رہی ہے۔ کلینک میں مریضوں کا رش ہے، جو مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے یہاں آئے ہیں۔
کوئٹہ کی کچی آبادی میں واقع یہ کلینک مہاجرین کے خاندانوں اور مقامی برادری دونوں کے کام آتا ہے۔ مرضلا، جو کہ میڈیکل کی طالبہ ہیں، کلینک آنے والی خواتین مریضوں کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہیں۔
وہ مریضوں کا ابتدائی معائنہ کرتی ہیں اور انہیں طبی امداد فراہم کرتی ہیں۔ اگر کوئی پیچیدہ معاملہ ہو تو وہ اس مریض کو کسی سینیئر ڈاکٹر کے پاس بھیج دیتی ہیں۔
انہوں نے پوری زندگی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا ہے۔ اپنے بچپن کو یاد کرتی مرضلا کا کہنا ہے کہ ’میں اپنی گڑیا کے ساتھ ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلتی تھی۔ مجھے میڈیکل پریکٹیشنر ہی بننا تھا۔ یہ طے تھا اور مجھے اس کے علاوہ کچھ قبول نہیں تھا۔‘
ایک خواتین اور پناہ گزین کے طور پر مرضلا کا ’گڑیا کے ساتھ ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلنے‘ سے لے کر اپنی برادری کو طبی مدد فراہم کرنے تک کا سفر مشکلات سے بھرپور رہا۔
40 سال قبل مرضلا کے والدین اپنی شادی کے بعد قندوز میں آباد ہونے کی کوشش کر رہے تھے جب انہیں وہاں سے نقل مکانی کرنا پڑی۔ وہ اپنے ارد گرد موجود تشدد سے بچتے ہوئے اپنا ملک چھوڑ کر بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں آباد ہو گئے۔
مرضلا اپنے والدین کے نو بچوں میں سے ایک ہیں، جو 2000 میں پیدا ہوئیں۔ کچھ خاندانوں میں صرف بیٹوں کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہے کیونکہ یہی سمجھا جاتا ہے کہ ہمیشہ بیٹے ہی والدین کی دیکھ بھال اور ملازمت کر کے گھر کے اخراجات اٹھائیں گے۔
لیکن اس کے باوجود مرضلا نے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھنا نہ چھوڑا اور لاتعداد گھنٹوں تک اپنی گڑیا کی خیالی بیماریوں اور زخموں کا علاج کرتی رہیں۔
ان کے خوابوں کو دھچکا اس وقت لگا جب پانچویں جماعت کے بعد انہیں سکول چھوڑنا پڑا۔ برادری کی باقی لڑکیوں کی طرح ان سے بھی یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ مزید تعلیم چھوڑ کر امور گھر داری سیکھنے میں لگ جائیں۔
کم سے کم ان کے گھر والوں نے تو ان سے یہی امید کی تھی لیکن مرضلا نے اپنے خوابوں کا پیچھا چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھ جتنی کم عمر لڑکی کے لیے غربت، میرے بھائیوں اور برادری کی عائد کردہ پابندیاں بلاؤں جیسی تھیں جو میرا راستہ روکے کھڑی تھیں۔ لیکن میرا عزم ان سے زیادہ مضبوط تھا اور اس نے مجھے ہار نا ماننے دی۔‘
ان کے والدین نے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کی حمایت کی لیکن یہ خفیہ مدد تھی۔ ان کے بڑے بھائی صبح سویرے کام پر نکل جاتے تھے اس لیے مرضلا کے لیے سکول جانا آسان تھا لیکن اگر وہ کسی دن جلدی واپس آ جاتے تو مرضلا کے والدین ان کی غیر موجودگی کا کوئی بہانہ بنا دیتے جبکہ وہ چھپ کر دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوتیں۔
انہوں نے اپنی تعلیم کے اخراجات سلائی کڑھائی اور چنے بیچ کر ادا کیے۔ مرضلا کا یہ عزم ان کی برادری میں فخریہ طور پر نہیں بلکہ شرمندگی کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ انہیں اکثر طعنے اور دھمکیاں سننے کو ملتی رہیں اور ان کے رشتہ دار ان کو پرتشدد دھمکیوں سے ڈرانے کی کوشش کرتے رہے۔
دسویں جماعت تک پڑھنے کے بعد ان کے والدین نے برسوں سے مخفی یہ راز ان کے بڑے بھائیوں کو بتایا لیکن حیران کن طور پر ان کے بھائیوں نے بھی اپنی بہن کی لگن دیکھتے ہوئے ان کی حمایت کی۔
مرضلا کا کہنا ہے کہ ’میں مسلسل خوف میں رہی یہاں تک کہ میرے بھائیوں نے میری حمایت کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے اپنے خواب کی تکمیل میں اپنا بچپن کھو دیا لیکن مجھے اس کا افسوس نہیں کیونکہ میں نے ایسا کر کے دوسری لڑکیوں کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے۔‘
مرسی کورپ کی مدد کی بدولت مرضلا نے کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں مڈوائف اور گائناکالوجی کے کورسز مکمل کیے اور پھر یہیں مقامی کلینک میں اس کی مشق شروع کر دی۔ ان کی محنت کا پھل اس وقت ملا جب انہیں ڈافی سکالرشپ پر بلوچستان یونیورسٹی میں میڈیسن اور سرجری کے شعبے میں داخلہ ملا۔
وہ ہمسائے جو کبھی ان کے ساتھ مخاصمت رکھتے تھے اب اپنے طبی مسائل کے لیے خاص طور پر خواتین کی امراض کے لیے ان سے مشورہ کرتے ہیں۔
برادری کے ایک بڑے جو ان کی تعلیم کی جم کر مخالفت کرتے تھے اب مرضلا کے بہت بڑے حامی بن چکے ہیں جس کی وجہ مرضلا کا ان کی بیٹی کا علاج کرنا ہے۔ آج انہیںاپنی برادری میں قابل عزت اور قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔
اپنے گھر میں مرضلا نے یہ ثابت کر دیا کہ صرف بیٹے ہی خاندان کی کفالت نہیں کرتے بلکہ بیٹیاں بھی ایسا کر سکتی ہیں۔ اپنی تنخواہ میں سے بچت کر کے انہوں نے اپنے گھر کے لیے ایک واشنگ مشین اور ریفریجریٹر خریدے ہیں۔
وہ فخر سے کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے والدین کو خوش کرنے کے لیے بہت کوشش کی اور میرے لیے یہ بہت اطمینان کی بات ہے۔ لوگوں کو اپنی بیٹیوں کو روکنا نہیں چاہیے۔ لڑکیاں اور لڑکے دونوں اپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے میں برابر ہیں اور یہ دونوں معاشرے کے لیے بہت اہم ہیں۔‘