فرض کریں کہ اگر جانوروں کو بھی ماڈرن اخلاقیات سمجھ میں آ جائیں اور وہ بھوکے مر جائیں لیکن ایک دوسرے کو کھانے سے پرہیز کریں، تو کیا ہو گا؟
شیر ہرن کا شکار نہیں کرے گا، پاس سے گزرتے گیدڑ کو دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھرے گا یا منہ دوسری طرف کر لے گا؟ بلی چوہے کو سامنے سے آتا دیکھ کے احترام میں سر جھکا لے گی، کتا ہڈیاں کھانے کی بجائے کیک رس اور ڈبل روٹی مانگے گا، گدھ اطمینان سے کسی مردہ بھینس کی لاش پر بیٹھ کے پڑوس سے مانگی ہوئی گھاس پھوس کھائے گا؟ چیتے صرف دودھ پی کے زندہ رہیں گے ۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا؟ سوچ کے ہی ہنسی آ جاتی ہے؟
اب اگر ہم کہیں کہ ایک جانور کا دوسرے جانور کو کھا جانا برا کام ہے، تو کیا ہم ٹھیک کہہ رہے ہوں گے؟ اگر کہا جائے کہ ایک جانور کا دوسرے جانور کو کھانا بالکل برا کام نہیں ہے، تو کیا یہ بیان درست ہو گا؟ ان دونوں باتوں کے علاوہ اگر ہم ایک تیسرا جواب تیار کریں تو وہ اس کیس پہ پورا بیٹھے گا، ’ایک جانور کا دوسرے جانور کو کھا جانا نیچرل ہے، فطری امر ہے۔‘ بات ختم؟
سویلین جانور (گائے، بھینس، گدھا، گھوڑا، بیل، مرغا، بکرے، دنبے) چونکہ ایسی فطرت پہ نہیں بنے اس لیے وہ دوسری خوراک پہ گزارا کر لیتے ہیں، لیکن، جو گوشت کھاتا ہے وہ بھی قدرت کی طرف سے ایسا ہے، جو گھاس کھاتا ہے وہ بھی ارتقائی عمل سے گزر کے اسی نظام پہ آیا ہے۔
عین اس طرح دنیا میں کچھ چیزیں موجود ہیں جو پہلے دن سے ہیں، جو آخر تک رہیں گی، ہم ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے تمیزدار تو ہو سکتے ہیں لیکن انہیں بدل نہیں سکتے۔
طاقتور اور کمزور کا فرق نہیں مٹ سکتا۔
امیر اور غریب کے درمیان کی حد ختم نہیں ہو سکتی۔
موٹاپے اور متناسب جسم کی سرحدیں نہیں مل سکتیں۔
گورا کالا اور کالا گورا نہیں ہو سکتا۔
لمبا قد لمبا ہی رہے گا اور چھوٹا قد چھوٹا ہی کہلائے گا۔
خوشبو اور بدبو کے معیار (چند مخصوص لمحات کے علاوہ) کبھی نہیں بدل سکتے۔
خوش ذائقہ اور بدذائقہ دونوں کھانے ایک سے نہیں ہو سکتے۔
ذہین اور کم عقل ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتے۔
ذہنی مریض اور نارمل انسان میں فرق اپنی جگہ موجود رہے گا۔
ادارے اور ایجنسیاں دنیا کے ہر ملک میں طاقت کا اصل مرکز رہیں گے۔
مرد اپنی خصلت نہیں بدل سکتا، عورت اپنی عادتیں ترک نہیں سکتی۔
ہمیں یہ سب چیزیں عین اسی طرح قبول کرنی ہوں گی جس طرح ایک جانور دوسرے جانور کو کھا جاتا ہے اور ہم اسے قدرتی بات سمجھ کر اوکے کر دیتے ہیں۔
ماڈرن اخلاقیات کے تحت ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس سب کا الٹ ہے۔ ہم اس ہرن پہ ترس کھاتے ہیں جو شیر کا نوالہ بنتا ہے۔ ہم بلی کو گندا سمجھتے ہیں کہ وہ چوہے کھا جاتی ہے، ہمیں گدھ مردار خور لگتا ہے، چیتے کے لیے ہم خونخوار کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اصل میں کیا ہے؟ یہ سب جانور اپنی فطرت پہ ہیں۔ آپ جو مرضی کہتے رہیں انہوں نے وہی کرنا ہے جو سافٹ وئیر ان میں ڈالا گیا ہے (اور بے شک وہ اپ ڈیٹ نہیں ہو سکتا۔)
انسانوں کی دو تین نسلوں نے انقلاب کے نعرے لگا لیے، لال جھنڈے لہرائے، تھک ہار کے بیٹھ گئے۔ کوئی شک نہیں کہ ذہنوں کی تربیت ہوئی، بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملا، دنیا شاید کچھ بہتری کی طرف آئی لیکن کیا بہتری؟ دو اتنی بڑی جنگوں پر سے چھلانگ مار کے، انقلابوں میں لاکھوں لوگ مروا کے، ابھی پھر ہم لوگ ایٹمی اثاثوں کے دہانوں پر بندھے ہوئے ایک دوسرے سے مذاکرات کرتے ہیں؟ دو ملک ایک دوسرے کے نشانوں پہ ہیں لیکن اقوام متحدہ میں ساتھ کرسیوں پہ بیٹھیں گے، ٹائی لگا کے چائے پانی پئیں گے، یہ حاصل ہوا اتنے لمبی تہذیبی سفر کے بعد؟ دنیا کے تقریبا ہر ملک میں جمہوریت آنے کے بعد بھی کیا طاقتور اور کمزور اپنی صفوں میں الگ الگ نہیں دکھائی دیتے؟ تو کوئی بنیادی اصول بدلا؟
زکوۃ دی، خیرات کی، حج سے آئے، حاجی صاحب بنے لیکن پیسہ نہ ہوتا تو کون سا غریب حاجی کہلاتا؟ کون سخی ہوتا؟ کس نے لنگر کروائے ہوتے؟ آٹا بانٹ کے تصویریں کھنچوانے والے مخیر حضرات اگر نہ ہوتے تو کتنے گھروں میں چولہا جل پاتا؟ ہے نا امیر امیر اور غریب غریب؟ تو کس چیز کی برابری ہو گی اور ہو بھی کیسے سکتی ہے؟
کبھی آپ نے اللہ میاں سے دعا مانگی کہ یا خدا میرا وزن دو سو کلو کر دے؟ کوئی ایک بندہ دکھا دیں جس نے مانگی ہو، اے پئی جے باڈی پازیٹیوٹی! کبھی آپ نے دل میں سوچا ہو، ہائے کاش، میرا رنگ توے کی طرح کالا ہوتا؟ کبھی کسی مزار پہ منت مانی ہو کہ اولاد کا قد چار فٹ سے زیادہ نہ بڑھے؟
سب کو پتلا ہونا ہے، سب نے خوشبو لگانی ہے، سب کو ذہانت پسند ہے، ہر ایک ’نارمل‘ زندگی گزارنا چاہتا ہے، سب کو طاقتور پوزیشن اچھی لگتی ہے، سب کو ذائقہ پسند ہے، سب ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں لیکن سب کو پولیٹیکلی کریکٹ رہنا بھی پسند ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیٹیکلی کریکٹ، مطلب ۔۔۔ ایسے ظاہر کرنا جیسے ہماری تربیت بالکل ٹھیک ڈائریکشن پہ ہوئی ہے، ہمیں سب پتہ ہے کہ ماڈرن اخلاقیات میں کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے، ہمیں انسانی معاشرے کی ساری کمزوریوں کو نرم الفاظ میں لپیٹ کر پیش کرنا آتا ہے۔
انگریزی میں ایسے نرم لفظ کو یوفیمیزم کہتے ہیں۔ جیسے ذہنی معذور کو مینٹلی چیلنجڈ کہیں گے، اگر کوئی جسمانی طور پہ معذور ہے تو اسے ڈفرنٹلی ایبلڈ کہیں گے، چھوٹے قد والا ورٹیکلی چیلنجڈ کہلائے گا، جنگ میں بندے مارنا کولیٹرل ڈیمیج بنے گا، آپ انگریز نہیں ہیں تو پرسن آف کلر کہلائیں گے، موٹے ہیں تو ۔۔۔ تو کل ملا کے گوروں کی وجہ سے ہمیں بھی جیسے تیسے یہ سب کرنا آ گیا ہے۔ یاد رکھیں کہ جو ان سب میں سے کسی مسئلے کا شکار ہے، اسے ان لفظوں کے پلستر سے کوئی فرق نہیں پڑا رہا، وہ اپنی جگہ ویسے ہی کھڑا ہے۔
تو اصل میں کیا چکر ہے؟ ہم مسئلے حل کرنے کی بجائے انہیں تھوڑا سوفٹ کر کے قبول کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری تہذیب ہو گئی، اس چکر میں ہم اپنا نقصان بھی کر رہے ہیں۔
ہم موٹے ہوتے جاتے ہیں اور باڈی پازیٹوٹی کا تعویز گھول کر پینے کے بعد سمجھتے ہیں کہ ہمیں وزن بڑھنے سے ہونے والی بیماریاں بھی نہیں ہوں گی۔ ہم امیر اور غریب کا فرق مٹاتے مٹاتے خود غریب رہ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو غریب مگر عظیم سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم طاقتور سے لڑتے لڑتے اپنا بیڑہ غرق کر لیتے ہیں لیکن خود وہ طاقت حاصل کرنے کا کبھی نہیں سوچتے۔ ہم کسی کو بھی ڈفرینٹلی ایبلڈ کہہ دیتے ہیں لیکن اسے اپنے جیسا ’ایبل‘ کر کے معاشرے میں کیسے ساتھ بٹھانا ہے، یہ خیال چھو کر نہیں گزرتا۔ ہم جھنڈا لہرانے والے ہر بندے کے پیچھے اس وقت تک چلتے ہیں جب تک ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ سب طاقت اجتماعی ہے، ہمیں انفرادی طور پہ اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ ہم کولیٹرل ڈیمیج کی خبر دیتے ہیں لیکن کتنی ماؤں کے بچے قبر میں اتر گئے، یہ نہیں گن سکتے۔
یاد رکھیں، آپ لفظوں کو بدل کر استعمال کر سکتے ہیں لیکن ان سے زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے، نسلیں کیسے ٹھنڈے میٹھے چشموں کے خواب دیکھتی ہیں، انفرادی طور پہ لوگ کیسے متاثر ہوتے ہیں، اس کا حساب لگانا بھی آپ ہی کی ذمے داری ہے۔
آپ کتنے سرابوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، کبھی نہ کبھی شمار کرنا پڑے گا!