چند دنوں پہلے سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ جس میں ایک شخص دیوانہ وار نادرا کی وین پر پتھر برسائے جا رہا ہے۔
قریب ہی ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی اس شخص کے احتجاج پر فراٹے بھرتی ہوئی موقعِ واردات سے بھاگ گئی۔ وہ شخص جس کا نام عبدالنبی ہے، خاران (بلوچستان) کا رہائشی ہے وہ شدت جذبات میں چلا رہا ہے، ’تم لوگوں نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے، کب تک یوں ہی ہم مقامی لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہو گے، اب بس بہت ہوا، ہم تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔ یہ اب مجھ سے مزید برداشت نہیں ہوتا۔‘
عبدالنبی کے مطابق یہ افراد افغان شہری تھے اور مبینہ طور پر نادرا کے اہلکاروں کے ہمراہ جعلی شناختی کارڈ بنانے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ عبدالنبی کے مطابق ان کے احتجاج کرنے پر اس کار میں سوار افراد نے ان پر فائرنگ بھی کی، شور شرابے کی وجہ سے کار میں سوار تمام افراد بھاگنے میں کامیاب ہو گئے لیکن عبدالنبی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ اس ویڈیو میں نادرا کی اس وین کا نمبر بھی باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ یہ بلوچستان کی تاریخ کا پہلا شناختی کارڈ نہیں جو باہر سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے بنایا ہو گا۔
1979 میں افغانستان پر سوویت حملے کے بعد اب تک کئی لاکھ افغان پناہ گزین بلوچستان میں آباد ہیں جو نہ صرف یہاں کاروبار، صحت اور دیگر سہولتوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ پاکستانی قومی شناختی کارڈ رکھے ہوئے ہیں۔ عبدالنبی کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اس سلسلے میں ہم نے سابق نیشنل پروگرام کوآرڈی نیٹر یو این ڈی پی زبردست خان سے رابطہ کیا۔ خان صاحب کے مطابق اب تک کوئی واضح ریکارڈ موجود نہیں کہ پاکستان میں کتنے افغان پناہ گزین آباد ہیں اور کتنے واپس چلے گئے۔ چونکہ وسیع رقبے اور جنگی حالات کی وجہ سے افغانستان سے آنے اور جانے والوں کا ڈیٹا جمع کرنا ممکن نہیں تھا، زبردست خان کے مطابق افغان پناہ گزینکو چاغی کے علاقے گردی جنگل میں وقتی طور پر قیام دینے کے دوران وہ خود وہیں موجود تھے۔
یہ انکشاف نہایت حیرت انگیز تھا کہ چاغی میں رہنے والے مقامی افراد کی کل آبادی نو ہزار ہے جبکہ گردی جنگل میں بسائے گئے افغان پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد تھی۔ چند سال پہلے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو جب ہلاک کیا گیا تو اس وقت ان کے پاس سے پاکستان کا شناختی کارڈ برآمد ہوا تھا۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو مرحوم نے بلوچستان میں مردم شماری کی مخالفت بھی اسی ضمن میں کی تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک افغان پناہ گزین جو ایک اندازے کے مطابق 14 لاکھ سے بھی زائد ہیں واپس افغانستان نہیں چلے جاتے اور جلا وطن بلوچ اپنے علاقوں میں واپس نہیں آ جاتے، ایسی مردم شماری کسی طور پر حقیقت پر مبنی نہیں ہو گی اور اس کا نقصان بلوچستان کے مقامی لوگوں کو بھی پہنچے گا۔
یہی وجہ تھی کہ بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ان کے آباﺅاجداد نے صدیوں سے ان کے وطن (بلوچستان ایک علیحدہ) ریاست کی حیثیت سے بچانے کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، مردم شماری ان حالات میں کروانا جب آپ کے صوبے میں افغان پناہ گزین آئی ڈی پیز کی صورت میں موجود ہوں، قابل قبول نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان میں موجود تمام قوم پرست جماعتوں نے اس وقت جو آواز اٹھائی آج اس کی وجوہات ہمارے سامنے ہیں۔ یہاں بلوچستان میں بدامنی کی وجہ سے بہت سے مقامی افراد، جن کا تعلق صوبے کے مختلف شہروں سے ہے جلا وطنی پر مجبور ہوئے جن میں کوہلو، جھالاوان، آواران، مستونگ اور دیگر کئی شہر شامل ہیں، وہاں اگر ہم مردم شماری انڈکس پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ آبادی کا تناسب غیر فطری ہے۔
1998 میں 65 لاکھ کی آبادی صوبے میں برپا شورش، مذہبی انتہا پسندی اور قحط سالی کے سبب نقل مکانی پر مجبور ہونے کے باوجود ایک کروڑ 23 لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔
2013 اور 2018 کے انتخابات میں گو کہ بلوچستان کی عوام نے رائے شماری میں کم حصہ لیا لیکن وہ تمام علاقے جہاں مقامی افراد رہائش پذیر ہیں وہاں ان کی آبادی اور شمالی بلوچستان کی آبادی کے تناسب میں بھی واضح فرق نظر آیا۔
ظاہر سی بات ہے کہ اگر کسی قسم کی تبدیلی کسی صوبے پر اثر انداز ہو گی تو اس کا اثر پورے ملک میں نظر آئے گا۔ افغان پناہ گزینوں کی پاکستان بالخصوص بلوچستان میں آزادانہ نقل و حرکت نے ملک بھر میں منشیات، جعلی کرنسی اور اسلحہ کے کلچر کو فروغ دیا، جہاں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پشتونوں کو یہ مشکل ہوئی کہ وہ اپنی پہچان ایک پاکستانی کی حیثیت سے کروا سکے، وہیں کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں بھی کئی افغان مختلف غیر قانونی سرگرمیوں میں گرفتار کیے گئے۔
گو گردی جنگل (چاغی) میں مقیم مختلف قبائل کے لوگوں نے جن میں سنجرانی اور نوتیزئی قبائل کے لوگ شامل ہیں، شروع میں ان پناہ گزینوں کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ان کی میزبانی بھی کی۔ وہ شاید اس بات سے نابلد تھے کہ یہ میزبانی آنے والے وقتوں میں عبدالنبی جیسے عام مقامی فرد کے ہیجان کا باعث بن جائے گی۔
جہاں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کی کسی بھی قسم کی امداد بند کر دی ہے، وہاں یہ کہا جاتا ہے کہ اب انہیں اس قسم کی امداد کی کیا ضرورت ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ملک کے بڑے شہروں میں نہ صرف ان کی جائیدادیں موجود ہیں اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ انہیں کاروبار اور سرکاری اداروں میں بھی دیکھیں گے اور یہ سب اس وقت ممکن ہوتا ہے جب عبدالنبی جیسے مقامی فرد کی فریاد پر مناسب کارروائی نہیں کی جاتی۔
اسی سلسلے میں جب ہم نے نادرا خاران کے آفیسر محبوب الحق بلوچ سے رابطہ کیا تو ہمارا سوال سننے کی بعد جو انہوں نے فون بند کیا تو وہ آج تک بند جا رہا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ خاران کے ڈپٹی کمشنر عبدالسلام اچکزئی نے دو جملے کہہ کر اپنی جان چھڑوائی کہ ایک تو نادرا کا معاملہ وفاق سے متعلق ہے اور دوسرے اس پر کمیٹی قائم کر دی ہے اور جلد کارروائی ہو گی۔
اب بھلا ایک پڑھے لکھے ڈی سی کو کون سمجھا سکتا ہے کہ نادرا ضرور وفاق کا ادارہ ہے لیکن یہ غیر قانونی عمل آپ کے اپنے علاقے میں وقوع پذیر ہوا ہے، اس لیے یہ بہرحال آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔
البتہ اس سلسلے میں خاران سے منتخب صوبائی اسمبلی کے ممبر اور سابق سینیٹر ثنا بلوچ نے اپنا بھرپور موقف دیا کہ یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے اور وہ کوشش کریں گے کہ اس پر اعلیٰ سطح کی انکوائری ہونی چاہیے۔
ثنا بلوچ کے مطابق ’ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے آ رہے ہیں اور اب ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہمارے وسائل کے ساتھ ساتھ ہماری شناخت کا بھی استحصال کیا جا رہا ہے۔ آخر یہ چیک پوسٹیں کس لیے ہیں؟‘
بلوچستان کے ان تمام علاقوں میں ایف سی اور لیویز موجود ہے جو ہر نقل و حرکت کی نگرانی کرتی ہیں اور سرحدوں کا تحفظ بھی انہی اداروں کے حوالے ہے۔ لہٰذا اب یہ ضروری ہے کہ تمام افغان باشندوں کا کوئی مستقل حل تلاش کیا جائے تاکہ مقامی لوگوں کے حق میں آج اور آنے والے وقتوں میں مزید زیادتیاں بند کی جائیں۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔