بلوچستان کے ضلع ژوب کے کچھ نوجوانوں نے صوبے میں درختوں کی بے دریغ کٹائی اور نئے درخت نہ لگانے کے مسئلے کو ایک قدیم رسم سے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایک طرف جہاں موسمیاتی تغیر اور بے دریغ کٹائی سے ملک میں درختوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے، وہیں دوسری جانب نئے درخت لگانے کی شرح انتہائی کم ہے۔
ژوب کے سالیمن خپلواک دوسروں سے مختلف سوچ رکھنے والے متحرک نوجوان ہیں، جنہوں نے ایک پرانی رسم اشر (یا ہشر) کو جدت سے ہمکنار کرنے کی کوشش کی ہے۔
سالیمن نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ جب ہمارے آباؤ اجداد دیہی علاقوں میں رہتے تھے اور آبادیاں کم تھیں تو لوگ اجتماعیت پر یقین رکھتے تھے۔ یہ رسم کہیں کہیں آج بھی موجود ہے لیکن شہروں میں مادہ پرستی کے باعث لوگ ایک دوسرے سے دور ہوگئے ہیں۔
’اشر دراصل زراعت سے منسلک رسم ہے۔ پہلے جب فصل کی کٹائی ہوتی تھی تو دیہات کے لوگ ایک دوسرے کی فصل کاٹنے میں ساتھ دیتے تھے۔‘
سالیمن نے بتایا کہ ایک دن انہوں نے کچھ بچیوں کو دیکھا جو سکول سے نکلنے کے بعد سخت گرمی میں سایہ نہ ہونےکے باعث پریشان کھڑی تھیں۔
’میں نےسوچا کہ اگر ان کے راستے میں درخت لگے ہوتے تو شاید ان کو گرمی کا زیادہ احساس نہ ہوتا، اسی سوچ کو مدنظر رکھتےہوئے میں نے یہ قدم اٹھایا۔‘
انہوں نے اس کام کو شروع کرنے سے قبل ایک سال تک لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی اور ان سے ملاقاتیں اور رابطے کیے۔ ’ہمارے پشتون معاشرے میں جب کسی حادثے یا کسی اور وجہ سے ایک فرد کا مکان گر جائے تو سب مل کر اس کی تعمیر کے لیے مل جل کر کام کرتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ دوستوں سے مشورے کے بعد انہوں نے اس کام کو شروع کیا۔ ’اس مہم کو اشر کا نام اس لیے دیا تاکہ ہماری معدوم ہونے والی یہ رسم دوبارہ زندہ ہو جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کام کے لیے ہم نے کھلے مقامات کے علاوہ گھروں، سکولوں اور کالجز میں درخت لگائے، جس کے لیے لوگوں کو اس کی اہمیت اور حفاظت کی بھی آگاہی دی گئی۔‘
سالیمن نے بتایا کہ وہ اب تک 13 سے 18 ہزار تک درخت لگا چکے ہیں، جس کے لیے کبھی کبھی 30 رضاکار ان کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں۔ ’درخت لگانے اور رضاکاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو ہماری کامیابی کی نشانی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک اجتماعی کام ہے جو کسی ایک علاقے تک محدود نہیں۔ اس کی ابتدا ژوب سے ہوئی اور اب اسے دوسرے علاقوں تک پھیلایا جا رہا ہے۔
’اب تک ہم نے ژوب کے علاوہ لورالائی اور کوئٹہ کے اندر بلوچستان یونیورسٹی میں درخت لگائے ہیں، اس کے بعد قلعہ سیف اللہ اور دوسرے علاقوں میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔‘
واضح رہے کہ ان نوجوانوں نے اپنے کام کی تشہیر کے لیے فیس بک پر ایک پیج بنایا ہے، جہاں ہر مہم کو براہ راست دکھایا جاتا ہے۔
سالیمن سے جب سوال کیا گیا کہ جو درخت لگتے ہیں ان کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے تاکہ وہ تن آور بن سکیں اور انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔
اس پر انہوں نے بتایا کہ پہلے تو ہم نے ان لوگوں کو درخت دیے جنہوں نے اپنے گھر یا چار دیواری میں انہیں لگایا، اس کے بعد سکولوں اور کالجوں کا نمبر آیا، جہاں کے اساتذہ اور عملہ مثلاً مالی وغیرہ ان کی دیکھ بھال کر سکیں۔
’ہمارا مقصد صرف درخت لگانا نہیں بلکہ ان کی حفاظت بھی ہے۔ اس کے لیے ہم نے گلیوں میں درخت لگانے کے دوران ان بچوں سے بھی گڑھے کھودنے اور درخت لگانے کا کام لیا تاکہ وہ بھی اس کام کی اہمیت سے آگاہ ہوسکیں۔‘
سالمین سمجھتے ہیں کہ اس کام سے نہ صرف بچے درخت لگائیں گے اور چار پانچ سال کے بعد درخت بھی بڑے ہوجائیں گے بلکہ ان بچوں کا شعور بھی بڑھے گا۔