شمالی ہند کی پہلی مسجد کہی جانے والی قوت الاسلام مسجد میں برسوں سے نماز نہیں ہوئی، یہاں ہر روز سیاحوں کی بھیڑ آتی ہے جو جوتوں سمیت مسجد کی صفوں پر چلتے ہیں لیکن یہاں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔
اس کے ارد گرد ہندوانہ طرز کے دو درجن سے زائد ستون ہیں، جس کی وجہ سے یہ مسجد ہندو شدت پسند جماعتوں کے نشانہ پر ہے۔
بھارت کی دارالحکومت دہلی میں واقع قطب مینار عالمی شہرت یافتہ ہے۔ وسیع وعریض رقبہ میں ایک عالیشان مینارہ ہے جسے قطب مینار کہتے ہیں۔ اسی سے متصل بغیر چھت کی ایک قدیم مسجد ہے۔ جو شمالی بھارت کی پہلی مسجد قراردی جاتی ہے۔
قطب مینار کے احاطہ میں آنے کے بعد پہلی نظر قطب مینار پر پڑتی ہے مگر اس سے پہلے مسجد کا احاطہ آتا ہے۔ جس کا داخلی دروازہ ٹیمپل دروازہ کہلاتا ہے۔
اس دروازے پر ہندوانہ طرز کے نقش و نگار اور کچھ چھوٹے چھوٹے بت نظر آجاتے ہیں لیکن محرابی حصے پر فارسی اور عربی کی عبارتیں درج ہیں۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی چاروں طرف قدیم پتھروں کی بنی چھت کے دالان نظر آتے ہیں۔ ان میں ہندوانہ طرز تعمیر کی ستون صاف نظر آجاتے ہیں۔ وسط میں بڑا سا صحن ہے، جس میں دو قبریں ہیں، جبکہ محراب کے حصہ میں بڑی بڑی دیواریں ہیں، جو اسلامی طرز کی ہیں۔ بڑی خوبصورتی سے بنائے گئے محراب کے کئی حصے منہدم ہو چکے ہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ کے سبکدوش گائیڈ قیصر خان بتلاتے ہیں کہ یہ مسجد برسوں سے اسی حالت میں ہے۔ اس پر کوئی چھت نہیں ہے۔ کھلے آسمان کے نیچے بنائی گئی مسجد میں برسوں سے نماز نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق شاید ظہیرالدین شاہ بابر کے عہد میں نماز ہوتی تھی، تاہم اس کے بعد سے یہ مسجد ویران ہے۔ کئی حصے ٹوٹ چکے ہیں، مگر جو برقرار ہے اس کی خوبصورتی اور سحر انگیزی بلا کی ہے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ یہ مسجد اور قطب مینار قطب ایبک کی یادگار ہے۔ قطب الدین ایبک خاندان غلامان کا بانی تھا جس نے اپنے ساتھ لائے فوجیوں کی ضرورت کے پیش نظر1193 میں مسجد قوت اسلام کی تعمیر کی۔
یہ مسجد کئی مرحلوں میں تعمیر میں ہوئی۔ آثار الصنادید میں ایک کتبے کا ذکر ہے، جو فی الحال مسجد میں موجود نہیں۔ اس کے مطابق اس مسجد کی تعمیر میں 27 مندروں کا مسالہ لگا ہے۔ اس کے چاروں طرف جو ستون ہیں اور اس پر پتھر کی چھت ہے، جس کے نقش ونگار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جین طرز کے ہیں۔ اسی وجہ سے ہندو شدت پسند جماعتیں اس مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ گزشتہ سال اس تعلق سے عدالت میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے، جو ابھی زیر التوا ہے۔
قیصر خان بتلاتے ہیں کہ اس بات کے یقینی شواہد نہیں ہیں کہ یہاں مندر کو توڑ کر مسجد بنائی گئی ہو، اگر ایسا ہوتا تو یہ دیواریں کیوں باقی رکھی جاتیں جن میں بتوں کے آثار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد دراصل صحن ہے، جس کے سامنے محراب ہے اور وہ باقی دیواریں مندر ہوسکتی ہیں۔ قیصر خان اس مسجد کو یکجہتی کی ایک مثال مانتے ہیں۔
قیصر کے مطابق جب سے بھارت میں ہندو شدت پسند جماعتوں نے سر ابھارا ہے تب سے قدیم تاریخی مساجد پر پران کی بری نظر ہے۔ جس عہد میں یہ لوگ بابری مسجد کو منہدم کرنے کی تحریک چلارہے تھے، اس عہد میں قوت الاسلام مسجد پربھی نشانہ باندھا گیا اور اچانک سے یہاں ایک مورتی برآمد کر لی گئی، جو ابھی بھی ایک دیوار پر نصب ہے اور اس پر لوہے کی جالی لگا دی گئی ہے۔
کہاجاتا ہے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جب قطب الدین ایبک نے ہندوستان میں قدم رکھا ہو تو اس وقت اسے مسلم تہذیبی نقوش کو تراشنے والے فنکار میسر نہیں آئے ہوں، تو جو حصہ اسلامی نقوش سے بن سکتے تھے بنائے گئے اور باقی ہندوانہ طرز کے فنکاروں سے بنوائے گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مندروں کی بقیہ جات استعمال کئے گئے ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مسجد کی توسیع بھی کی گئی۔ قطب الدین ایبک کے عہد میں مسجد کی لمبائی اور چوڑائی 141 فٹ اور 105 فٹ تھی ۔اسی صحن کے اطراف دالان بنا ہوا تھا، جو ہندوانہ طرز کے ستونوں پر واقع ہے۔
قطب الدین ایبک کے بعد التمش نے اس مسجد کی توسیع کی ذمہ داری اٹھائی اور مشرقی جانب خواتین کے لیے مصلی بنوانے کے علاوہ خوبصورت نقش و نگاری ہوئی، جس میں اسلامی طرز کی چھاپ نمایاں ہے۔
اس کے بعد 1300 میں علاؤالدین خلجی نے علائی دروازہ بنایا، جو بہت ہی خستہ حالت میں ہے۔ صحن کے سیدھے حصے میں طویل قامت محرابیں ہیں، جن کی طوالت کافی ہے، تاہم اب یہ پتہ نہیں چل پاتا کہ مسجد کا حصہ کیا ہے۔ سیاح بھی بس پتھروں اور دیواروں میں محو رہتے ہیں۔
مسجد کے باہر کتبے پر مسجد قوت الاسلام کا نام نمایاں طور پرلکھا ہے مگرمسجد کے احاطے میں کسی بھی طرح کی کوئی تفصیل نہیں لکھی ہے۔ اب یہ مسجد تنازعات کے گھیرے میں ہیں۔ لیکن سیاحوں کی آمد سے آمدنی ابھی رکی نہیں ہے۔
یہاں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ اگرکوئی نماز پڑھے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔