بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں سیف سٹی منصوبے کے تحت باڑ لگانے کا کام تین ماہ قبل شروع کیا گیا تھا، جسے سیاسی جماعتوں اور عوامی احتجاج کے بعد روک دیا گیا ہے اور باڑ لگانے کے لیے لگائے گئے پول واپس اکھاڑے جارہے ہیں۔
گوادر کے مخصوص علاقے کو الگ کرنے کے لیے باڑ لگانے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا، جس کی مقامی لوگوں اور سیاسی جماعتوں نے شدید مخالفت کی تھی۔
باڑ لگائے جانے کے مقام کے قریب ہی رہائش پذیر ایک شہری نبی داد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج صبح جب وہ اپنے کام کے سلسلے میں موٹر سائیکل پر وہاں سے گزر رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ انتظامیہ کے لوگ پول اکھاڑ رہے ہیں۔
اسی حوالے سے گوادر کی ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی باڑ لگانے کے عمل کو بند کرنے کی تصدیق کر دی ہے۔ انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کی شرط پر بتایا کہ باڑ لگانے کے عمل کو روک دیا گیا ہے۔
نبی داد نے بتایا کہ ’یہ بہت خوش گوار ہے کہ باڑ لگانے کا کام روک دیا گیا ہے۔ ہم سجھتے ہیں کہ یہ باڑ گوادر کی آبادی کو نہیں بلکہ دو جسموں کو الگ کرنے کی کوشش ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’باڑ کے حوالے سے گوادر کے شہریوں کو بہت تشویش تھی اور انہوں نے بھرپور احتجاج کرکے آواز بلند کی کہ یہ منصوبہ کسی بھی طرح عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔‘
نبی داد کی طرح گوادر کے دیگر شہری بھی اپنے علاقے میں آئے روز کی تبدیلیوں سے پریشان رہتے ہیں۔ باڑ لگانے کے عمل نے ان کو اپنے مستقبل کے حوالے سے مزید پریشانی کا شکار کردیا تھا۔
گوادر میں باڑ لگانے کے عمل کے خلاف بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین منیر کاکڑ ایڈووکیٹ نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ یہ آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
منیر کاکڑ کا موقف یہ تھا کہ اگر کہیں سیف سٹی پراجیکٹ پر عمل ہو رہا ہے، تو اس میں باڑ لگانا شامل نہیں ہے، کیونکہ اس جدید دور میں کسی شہر کو محفوظ بنانے کے اور بھی طریقے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ باڑ لگانے سے گوادر کی تین لاکھ کے قریب آبادی میں سے ایک لاکھ اندر اور دو لاکھ باہر ہوجائے گی اور اس سے ماہی گیری سے وابستہ مقامی آبادی کا راستہ بند ہوجائے گا۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے آئینی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے حکومت سے کہا تھا کہ یہ معاملہ بلوچستان اسمبلی میں اٹھایا جائے اور اس پر قانون سازی کرکے عوام کے خدشات کو دور کیا جائے۔
جس پر بلوچستان حکومت نے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے گوادر کا دورہ کرکے اس معاملے کے حوالے سے عوام کے خدشات کے بارے میں معلومات حاصل کرکے رپورٹ دینی تھی۔
باڑ لگانے کے عمل کے خلاف گوادر میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے بھی احتجاج کیا اور اس سلسلے میں عوامی جرگے کا انعقاد کیا گیا، جس میں لوگوں نے اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
گوادر بلوچستان کے مکران بیلٹ کا ساحلی علاقہ ہے، جہاں سی پیک کے تحت ایک میگا منصوبے پر عمل جاری ہے، جس کے ذریعے گوادر کودنیا کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔
گوادر کے مقامی باشندوں کی طرح سیاسی رہنما اور دانشور بھی باڑ لگانےکے فیصلے کو بنیادی انسانی حقوق سے متصادم عمل قرار دیتے ہیں۔
معروف دانشور اور سینیئر سیاستدان رحیم ظفر نے بھی باڑ لگانے کے عمل کو منفی قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ظفر رحیم نے کہا کہ ’گوادر شہر کے داخلی راستوں پر چیکنگ کی حد تک تو معاملہ قابل قبول ہے، لیکن پورے شہر کی فینسنگ کرکے باڑ لگانے والا معاملہ انتہائی غیر دانشمندانہ عمل لگتا ہے۔‘
دوسری جانب بلوچستان بار کونسل کے نائب چیئرمین منیر کاکڑ ایڈووکیٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گوادر میں باڑ لگانے کے لیے لگائے گئے پول واپس اکھاڑے جارہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمارا موقف شروع سے یہی رہا ہے، جس کے لیے ہم نے بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع بھی کیا تھا کہ کسی بھی شہر کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا عمل درست نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’جس علاقے میں ترقی دینی ہے تو اس کے لیے وہاں کے عوام کا اطمینان ضروری ہے۔‘
منیر کاکڑ کے مطابق دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ترقی کے عمل میں عوام کے روزگار کو تحفظ ملنا چاہیے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی کیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دنیا میں آئی ٹی کے ذریعے لوگوں کا تحفظ کیا جارہا ہے، جس کی بڑی مثال چین ہے، جہاں کوئی بھی شخص کیمرے کی آنکھ سے دور نہیں ہے، لہذا گوادر میں باڑ لگانے کی بجائے اگر جدید ٹیکنالوجی اور ڈرون کے استعمال کے ساتھ ساتھ جدید ٹاور لگائے جائیں تو یہ زیادہ مناسب عمل ہوگا۔‘
منیر کاکڑ کے مطابق: ’اگر حکام نے گوادر میں باڑ لگانے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے اور ہماری اطلاعات کے مطابق پول واپس اکھاڑے جارہے ہیں تو ہم اس کو مثبت عمل سمجھتے ہیں۔‘