دھیمے انداز اور ملائم لہجے میں اپنا موقف سمجھانے والے گوادر کے باشندوں کا مزاج بھی ان کے سمندر کی طرح پرسکون رہتا ہے، لیکن وہ آج شہر میں ایک بڑی نئی تبدیلی سے خوف زدہ نظر آتے ہیں۔ یہ خوف ایسا ہی ہے جیسے کسی کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈالے جانے کا خوف ہو۔
بلوچستان کی حکومت ان دنوں گوادر کے زمینی داخلی راستوں کو ملک کے سرحدی علاقوں کی طرح باڑ لگا کر محفوظ بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ تاہم اس کے باعث گوادر کے رہائشی مستقبل میں اپنی پناہ گاہ کو جیل جیسا ہی تصور کرنے لگے ہیں۔
طالب علم جاوید مولا بخش کو اکثراوقات شہر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ انہیں شہر سے باہر جاتے ہوئے کئی سوالات اور شناخت ظاہر کرنے کی مطالبوں سے کوفت ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’باڑ تو کئی مہینوں اور بلکہ سالوں سے لگی ہے۔ اب تو اسے رسماً لگانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔‘
جاوید کے مطابق: ’شہر میں پہلے سے ناکے اور چیک پوسٹ لگے ہیں جہاں سے ہر بار گزرنے پر آپ کو وجہ بتانا پڑتا ہے۔ اب مسئلہ گوادر کی شناخت کا رہ جاتا ہے کہ یہ واقعی صوبے کا حصہ ہے یا اسے وفاق کنٹرول کرتا ہے۔‘
یہ نہ صرف جاوید بلکہ گوادر کے ہر رہائشی کی کہانی ہے جو شہر کی چیک پوسٹوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے رویے سے نالاں نظر آتے ہیں۔
ایک اور رہائشی ڈاکٹر عزیز بلوچ باڑ کے منصوبے کو گوادر کے شہریوں کو احساس غلامی دلانا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ باڑ نہیں بلکہ لوگوں کی تقسیم کا وہ عمل ہے جس کی ابتدا کردی گئی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سی پیک کے نام پر گوادر کے عوام اور ماہی گیروں کے حقوق تلف کرنے کا عمل جاری ہے اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے بہت بڑا راز ہے۔ علاقے میں چین کا تحفظ کرنے اور اسے اپنی نگرانی میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘
ڈاکٹر عزیز بلوچ گوادر کے عوام کو اس عمل کے خلاف آواز بلند کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’اگر ہم نے آواز نہیں اٹھائی تو یہ ہم سے چھن جائے گا۔‘
’یہ کیسی ترقی ہے؟‘
گوادر میں باڑ لگانے کے عمل کو سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ گوادر میں باڑ لگائی جارہی ہے تاکہ کوئی شہری اندر نہ آسکے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ’یہ کسی ترقی ہے جس میں یہاں کے مقامی باشندوں کو اپنی سرزمین میں داخلے کی اجازت نہیں ہے؟‘
سردار اختر مینگل اسے ترقی نہیں بلکہ استحصال قرار دیا جسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
اس منصوبے کے خلاف سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر سیاسی جماعتیں اور شہری مذمت کے پوسٹ شیئر کر رہے ہیں۔
تاہم وزیر اعلیٰ جام کمال نے جمعرات کو ایک میڈیا ٹاک میں اس منصوبے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ گودار میں بھی کوئٹہ سیف سٹی طرز کے پروجیکٹ پر کام ہو رہا۔ ان کے بقول گودار کو سیل کرنے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے اور ’اس حوالے سے صرف پروپگینڈا کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر گوادر کی ترقی کو نہیں دیکھنا چاہتے اور اپوزیشن پارٹیوں پر اس منصوبے پر سیاست کرنے کا الزام لگایا۔
’یہ تاریخی المیہ ہے‘
گوادر بلوچی زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ ’گوات‘ بلوچی زبان میں ہوا کو کہتے ہیں اور ’در‘ کے معنی کے دروازہ ہے، یعنی گوادر ہوا کا دروازہ۔
گوادر اس سے قبل عمان کا حصہ بھی رہا ہے جسے پاکستان نے 1958 میں عمان سے خرید کر اپنا حصہ بنایا۔ یہاں 2002 میں گوادر کی بندرگاہ پر کام شروع ہوا جس کا افتتاح سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف نے کیا۔
جہاں گوادر شہر کے گرد باڑ لگانے کے عمل کی سیاسی جماعتیں مخالفت کررہی ہیں، وہیں دانشور بھی اس عمل کو لوگوں کے ذہنوں میں سوالات جنم لینے کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اقدام کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں ہے۔
معروف سیاسی رہنما مصنف اور دانشور ظفر رحیم کہتے ہیں: ’یہ ایک تاریخی المیہ ہے کہ گوادر بلکہ پورے بلوچستان کی بد قسمتی کی وجہ اس کا ساحل اور وسائل ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ گوادر کے لوگوں نے پاکستان میں شامل ہونے کے لیے ہنگامہ آرائی اور جلسےجلوس کیے تھےکیونکہ سلطنت عمان ایک مطلق العنان ملک تھا جہاں شہری آزادی یا انسانی حقوق کا تصور نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ گوادر والوں نے انسانی حقوق اور آزادی حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں شامل ہونے کی جدوجہد کی تھی، لیکن اب یہ جمہوری ملک ان کی یہ آزادی، شہری اور انسانی حقوق سلب کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ گوادر کے حوالے سے بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں ایک عرصے یہ خدشات ظاہر کرتی رہی ہیں کہ سی پیک منصوبے کے ذریعے گوادر کو صوبے سے الگ کیا جارہا ہے۔
ظفر رحیم کے بقول: ’اس قسم کے اقدامات سے قوم پرست جماعتوں یا سیاست دانوں کے اقلیت والے خدشات درست ثابت ہوتے ہیں۔ کیا ہم ایسے غیر ضروری اقدامات سے دستبردار نہیں ہوسکتے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس طرح کے اقدامات سے لوگوں میں ملک کے خلاف نفرتوں میں اضافہ ہوگا، جو اچھا شگون نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ مخصوص عقل سے عاری اقدام ملک کے لیے مسائل کا سبب بنے گا۔‘
سی پیک منصوبے کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے بلوچستان کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ ظفر رحیم بھی سمجھتے ہیں کہ سی پیک سے گوادر اور اس کے شہریوں کو ابھی تک کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے اور نہ تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
گوادر بلوچستان کے شورش سے متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہاں واقع پرل کانٹینٹل ہوٹل پر گذشتہ سال ایک حملہ بھی ہوا تھا جس میں اسے شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔
اسی طرح بلوچستان کا ضلع کیچ شورش سے زیادہ متاثر ہے جہاں پر کئی مسلح تنظیمیں برسرپیکار ہیں جو اکثر اوقات سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کرتی رہتی ہیں۔
ظفر رحیم کہتے ہیں کہ گوادر شہر کے داخلی راستوں پر چیکنگ کی حد تک تو معاملہ قابل قبول ہے، لیکن پورے شہر کی فینسنگ کرکے باڑ لگانے والا معاملہ انتہائی غیر دانشمندانہ عمل لگتا ہے۔
دوسری جانب نیشنل پارٹی نے باڑ لگانے کو سازش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گوادر کو ضلع بنانے اور بلوچستان سے الگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
کوئٹہ پریس کلب میں جمعرات کو پریس کانفرنس میں نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر سینیٹر میر کبیر محمد شہی اور سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی نے کہا کہ حکومت سکیورٹی کو جواز بنا کر گوادر شہر کو عملاً کنٹونمنٹ میں تبدیل کررہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہم اس عمل کو رد کرتے ہیں اور اسے عوام کی نقل و حرکت پر پابندی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔‘
نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ اس عمل کے خلاف سیاسی جماعتوں اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں گے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور چیک پوسٹوں کی موجودگی کے باوجود شہر کے گرد باڑ لگانے کا عمل کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
ظفر رحیم مزید کہتے ہیں کہ ’یہ بالکل پاگل پن ہے۔ نہ معلوم اس قسم کے بیہودہ اقدام سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ اس سے پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوگی۔ اگر یہ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے کی جا رہی ہے تو اس سے ہمارے اس قدر الرٹ سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے حوالے سے سوالات جنم لیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ گوادر کے تمام داخلی راستے پہلے سے سیل تھے۔ اب شہر کو سیل کرنے کا مطلب گوادر کو تجارتی سرگرمیوں سے دور رکھنا ہے کیونکہ تجارتی سرگرمیوں کے لیے مکمل آزادانہ نقل و حمل کی ضرورت ہے۔
باڑ لگانے کے عمل پر ظفر رحیم کہتے ہیں کہ ’اس طرح تو فوجی چھاؤنیاں سیل نہیں ہیں۔ کیا گوادر کو محض نیول بیس یا جنگی حکمت عملی کے پیش نظر اس طرح سیل کیا جا رہا ہے۔‘