گوادر میں جاری منصوبوں سے متعلق مقامی لوگ، قوم پرست پارلیمانی جماعتیں اور صحافتی حلقوں کو ہمیشہ سے خدشات رہے ہیں کہ مقامی آبادی کو ایک نہ ایک دن بے دخل کیا جائے گا مگر جو کوئی جماعت صوبائی یا وفاقی حکومت کا جب تک حصہ رہا ہے تب تک تو انہیں سب کچھ ٹیک لگتا ہے لیکن بعد میں اپوزیشن میں آنے کے بعد ان کے خدشات میں دوبارہ اضافہ ہوتا ہے۔
ایک نوجوان سوشل میڈیا پر گوادر میں باڑ لگانے کے خلاف چلنے والی مہم میں حکومت سے پوچھتا ہے کہ ’باڑ کیوں لگا رہے ہو صاف صاف بول دو کہ بھاڑ میں جاؤ۔‘
حالیہ خدشات گوادر سے متعلق باڑ لگانے کے بعد سامنے آرہے ہیں۔ گذشتہ دنوں آٹھ دسمبر کو سرکاری سطح پر یوم گوادر منایا گیا جو گوادر کا پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا 62واں دن تھا۔
اس دن کو سیاسی، عسکری قیادت کے ساتھ مقامی شخصیات نے بھی منایا جن میں بیشتر کا سیاسی تعلق قوم پرست جماعتوں سے ہی ہے۔ حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ گوادر سلطنت آف عمان سے خریدا گیا ہے جبکہ قوم پرست ہمیشہ سے اس بات کی تردید کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے کہ وقتا فوقتا صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں رہنے کے باوجود بھی کوئی بھی ایسی آئین سازی نہ کرسکے جس سے گوادر کی حیثیت وفاق اور صوبے کے درمیان واضح ہو۔
موجودہ باڑ لگانے سے متعلق صوبائی حکومت اور اداروں کا کہنا ہے کہ یہ گوادر سیف سٹی منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد شہر سمیت مختلف ترقیاتی منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن سیاسی و سماجی حلقے اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہاں حکومتی اقدامات سے متعلق قوم پرست قیادت کے لیے بھی کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں کہ کیا باڑ لگانے اور ایک طرفہ خشکی کا راستہ بند کرنے سے سکیورٹی کا عمل مکمل ہوگا؟ کیونکہ گوادر کے انتہائی سیف زون میں واقع پی سی ہوٹل پر حملہ کرنے والے تو کسی خشکی کے راستے سے نہیں آئے وہ تو سمندری راستوں سے آئے تھے۔ کیا سمندر میں بھی باڑ لگایا جائے گا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قوم پرست سیاسی قیادت کے حالیہ غم و غصہ اور احتجاج کو دیکھ کر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا گوادر میں باڑ پہلی دفعہ لگ رہی ہے؟ کیونکہ شہر میں داخلی دو اہم مخصوص راستوں کے علاوہ داخلہ تو پچھلے کئی سالوں سے ممنوعہ تھا اور شہر کے آس پاس کی بیشتر زمینیں یا تو فروخت ہوچکی ہیں یا ان پر ہاؤسنگ سکیم بن رہے ہیں جنہیں زیادہ تر خریدنے والے غیر مقامی لوگ ہیں اور اگر ان کا مطالبہ ہو کہ ہماری زمینیں باڑ میں ہی ہوں تو کیا کیا جائے گا؟ اور یہاں ایک ممنوعہ سوال یہ بھی ہے کہ ان زمینوں کی فروخت کرنے والے اور ہاؤسنگ سکیم کے مالکان بیشتر انہی قوم پرست پارلیمانی جماعتوں کے سرمایہ دار طبقے میں سے ہیں۔
ایک بلوچ صحافی کا قوم پرستوں سے یہ سوال بھی حق بجانب ہے کہ ’ڈاکٹر مالک سے لے کر عبدالحی تک، سردار اختر مینگل سے لے کر سردار عطا اللہ مینگل تک دوسرے تمام پارلیمانی قوم پرست جب 90 کی دہائی سے گوادر کے موجودہ حالات کی پیش گوئی کر رہے تھے تو یہ دن کیوں دیکھنے کو مل رہے ہیں؟ ان کی ناکامیوں پر پردہ کیوں؟ اور یہ شور و احتجاج آج کیوں؟
گوادر کے مقامی ماہی گیروں سے متعلق ایک قرار داد صوبائی اسمبلی میں پچھلے کئی سالوں سے پڑی سڑھ رہی ہے جسے اگر منظور کیا جاتا تو مقامی ماہی گیروں کو قانونی حیثیت سے مزدور تسلیم کیا جاتا مگر صوبائی اسمبلی میں شامل یہ قیادت اور گوادر کے نمائندے کچھ نہ کرسکے۔ ماہی گیروں کا معاشی استحصال کرنے والے غیر قانونی ٹرالرز تک کو نہ روکا جاسکا۔
سچ یہی ہے کہ گوادر کے عام شہری نہ تو وفاقی حکومت کے دعووں اور ترقیاتی منصوبوں سے خوش ہیں اور نا ہی قوم پرست قیادت کی تسلیوں سے۔ بلکہ اس موجودہ باڑ لگانے کے احتجاج کو بھی مقامی لوگ شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ کہیں اپوزیشن کی پی ڈی ایم جلسوں کے لیے ماحول کو گرم رکھنے اور آئندہ کسی جلسے کے لیے گوادر کی زمین استعمال کرنے کے لیے کوئی موقع بازی تو نہیں۔
گوادر کے لوگ وفاق کے کیے ہوئے وعدوں میں یونیورسٹی کا مطالبہ کرتے ہیں، صحت و تعلیم اور پانی و بجلی کی سہولیات سے لے کر اپنے معاشی تحفظ کی یقین دہانی کا مطالبہ کرتے ہیں اور قوم پرست سیاسی قیادت سے مخلص اور دور اندیش ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ آئینی و قانونی طور پر ان کی آنے والی نسلوں کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں ناکہ وقتی جذباتی تقاریر، چند اشعار اور نعرے بازی اور یہ کہ اب قوم پرست جماعتیں اور وفاق یہ واضح کریں کہ گوادر کی اصل حیثیت کیا ہے اور سلطنت آف عمان کے ساتھ کن معاہدوں پر گوادر حاصل کیا گیا تھا۔