خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کی سینٹرل جیل میں ایک نوجوان قیدی نے 20 مارچ کی صبح مبینہ طور پر خود کو پھندا لگا کر خودکشی کرلی، جس کے بعد جیلوں میں قیدیوں کی ذہنی صورت حال کے حوالے سے سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔
مردان سینٹرل جیل کے حکام کے مطابق 35 سالہ قیدی محمد اسلام نے نماز فجر کے وقت بیت الخلا کے دھاتی ڈنڈوں سے چادر لٹکا کر خودکشی کی۔ حکام کے مطابق وہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ خودکشی کی کوشش کر چکے تھے اور یہ کہ نفسیاتی ماہر انہیں جیل آنے سے بہت پہلے ذہنی طور پر بیمار قرار دے چکے تھے۔
اس واقعے کے فوراً بعد جیل سپرنٹنڈنٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو خط لکھ کر حالات سے آگاہ کیا اور قیدی کے پوسٹ مارٹم کی اجازت طلب کی۔ جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے قیدی کی انکوائری شروع ہوچکی ہے، جس کی تفصیلی رپورٹ پیر کو متوقع ہے۔
مردان سینٹرل جیل کے سابق سپرنٹنڈنٹ ریاض مہمند نے اس واقعے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2019 میں جس وقت وہ بطور مردان جیل سپرنٹنڈنٹ فرائض انجام دے رہے تھے، ان دنوں بھی محمد اسلام کسی دوسری واردات میں جیل لائے گئے تھے۔
انہوں نے بتایا: ’اگرچہ بعد میں محمد اسلام ضمانت پر رہا ہوگئے، لیکن مجھے یاد ہے کہ وہ ایک جارحانہ طبیعت کے حامل قیدی تھے۔ سائیکاٹرسٹ نے ان کے رویوں کا تجزیہ ہمیں بھجوایا تھا، اسی لیے میں نے ان پر دو پہرے داروں کی ڈیوٹی بھی لگائی تھی۔‘
مردان جیل حکام کے مطابق قیدی کے ساتھ جیل میں ان کے والد اور چچا، جو کہ ان کے سسر بھی ہیں، بھی قید تھے اور یہ تینوں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 9 سی، 223، 224 اور 324 کے تحت قید تھے۔
جیل ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ محمد اسلام کے والد خود کہہ چکے ہیں کہ ان کے بیٹے نے جیل آنے سے قبل بھی خودکشی کی کوشش کی تھی۔
سابق سپرنٹنڈنٹ جیل ریاض مہمند نے بتایا کہ ذہنی مسائل سے دوچار قیدیوں کو رکھنا جیل حکام کے لیے ایک نہایت مشکل کام ہوتا ہے۔ ’ان پر ہر وقت کڑی نظر رکھنی پڑتی ہے تاکہ وہ خود کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔ جب وہ بیت الخلا جاتے ہیں تو انہیں ہر دو، تین منٹ بعد آواز دی جاتی ہے اور یہ سب اتنا آسان نہیں ہوتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یاد رہے کہ فروری 2020 میں بھی مردان سینٹرل جیل میں اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ پیش آیا تھا، جب چارسدہ سے تعلق رکھنے والے رحمان اللہ نامی قیدی کی جیل میں لاش ملی تھی، جنہوں نے خود کو پھانسی دی تھی۔
2014 میں اٹک ڈسٹرکٹ جیل میں بھی 2011 سے قید ایک کم عمر نوجوان قیدی نے بستر کی چادر کا پھندا بنا کر خودکشی کی تھی، جس کے بعد جیل انتظامیہ کو عوام نے کافی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، تاہم جیل حکام نے وضاحت دی تھی کہ قیدی اپنے اوپر لگے الزامات کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں تھا۔
جیلوں میں قیدیوں کے خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے حوالے سے ماہر نفسیات نائلہ اعوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہر جرم کے پیچھے ایک ذہنی علالت پوشیدہ ہوتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پولیس حکام کا رویہ اور جیل خانہ جات کا ماحول اس ذہنی کیفیت میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
بقول نائلہ: ’ترقی یافتہ ممالک میں جب ایک قیدی جیل میں داخل ہوتا ہے تو اس کو فوراً ایک مینٹل ہیلتھ پروفیشنل کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے، وہ اس کی تمام تر اسسمنٹ کرتا ہے، اور پھر اس رپورٹ کے مطابق قیدی کا خیال رکھا جاتا ہے۔‘
ماہر نفسیات نائلہ اعوان نے بتایا کہ ان کے مطالعے کے مطابق نفسیاتی مسائل کے شکار زیادہ تر قیدی ’اینٹی سوشل ڈس آرڈر‘ کے شکار ہوتے ہیں۔ ’یہ وہ نفسیاتی بیماری ہے جو اکثر ان بچوں کو لاحق ہوجاتی ہے جن کے والدین میں ناچاقی رہتی ہے یا وہ اپنے بچوں کو توجہ نہیں دیتے۔ اکثر بچوں میں یہ جینیاتی طور پر بھی منتقل ہوتی ہے جبکہ معاشرے کا بھی اس میں ہاتھ ہو سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے قیدیوں کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور انہیں ایسے ماحول میں رکھنا چاہیے کہ وہ خود کو یا دوسروں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔‘
نائلہ کا مزید کہنا تھا کہ ایک قیدی چاہے کتنے ہی سنگین جرم کا مرتکب ہوا ہو، اس کے ساتھ بھی غیر انسانی سلوک روا نہیں رکھا جا سکتا بلکہ اس کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔‘