لاہور کی ایک صارف عدالت نے دلہن کی کڑھائی کے لیے دی گئی قمیص مبینہ طور پر مقررہ وقت پر نہ دینے والے درزی کو نو اپریل کو طلب کر لیا۔
لاہور کے رہائشی اور ایڈووکیٹ محمد اسلم جاوید نے صارف عدالت میں ٹاؤن شپ لاہور کے ایک درزی ماسٹر افضال علی کے خلاف 50 ہزار روپے ہرجانے کا کیس دائر کیا ہے۔
ایڈووکیٹ اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے بیٹے کی دسمبر 2020 میں شادی طے پائی تھی۔ ’میری بیگم نے دلہن کے ولیمے کے جوڑے کی قمیص ماسٹر افضال علی کو کڑھائی کے لیے دی۔
’افضال نے کڑھائی کے چھ ہزار روپے طلب کیے جس میں سے تین ہزار روپے میری بیگم نے انہیں پیشگی دیے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جوڑا تیار کر کے واپس کرنے کی تاریخ 25 نومبر طے پائی جبکہ بیٹے کی شادی 12 اور 13 دسمبر کو تھی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ افضال نے مقررہ تاریخ پر جوڑا تیار کر کے نہ دیا جبکہ اس کے بعد بھی وہ حیلے بہانے کرتے رہے، نتیجتاً انہیں بازار سے ایک مہنگا جوڑا خریدنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ درزی نے اب تک وہ قمیص واپس نہیں کی۔ شادی گزر جانے کے بعد انہوں نے ماسٹر افضال کو 26 جنوری کو عدالت کے ذریعے ایک قانونی نوٹس بھیجا جس میں انہوں نے اپنی تمام تر ذہنی کوفت اور مالی نقصان کے عوض 50 ہزار روپے ہرجانے کا مطالبہ کیا۔
ان کے مطابق تاہم ماسٹر افضال نے اس قانونی نوٹس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اسلم نے مزید بتایا کہ ان کے پاس درزی کی دی گئی رسید موجود ہے جس پر وصول کردہ ایڈوانس رقم اور تیار قمیص دینے کی تاریخ درج ہے۔
دوسری جانب ماسٹر افضال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قمیص اب بھی ان کے پاس پڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ قمیص تیار کرنے میں ایک دو دن کی تاخیر ہوئی، جس کی اطلاع انہوں نے اسلم جاوید کی اہلیہ کو دے دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جب وہ قمیص لینے آئیں تو انہیں کام پسند نہیں آیا۔ ’میں نے ان سے پوچھا کہ اگر کام پسند نہیں آیا تو مجھے بتا دیں تاکہ میں کچھ کر سکوں لیکن باجی غصے میں واپس چلی گئیں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے پھر کوئی رابطہ نہیں کیا۔‘
افضال نے بتایا کہ وہ پڑھے لکھے نہیں، انہیں قانونی نوٹس ملا تھا لیکن کچھ قریبی لوگوں نے مشورہ دیا کہ وہ قمیص تیار کر دیں اور باقی چیزوں کی فکر نہ کریں۔ اس سارے کیس میں صارف عدالت نے اب افضال کو نو اپریل کو طلب کیا ہے جس کا علم افضال کو تاحال نہیں۔
وہ پریشان ہیں کہ کرونا وبا کے سبب کام بند ہونے کی وجہ سے ان کا گزر بسر مشکل سے ہو رہا ہے تو وہ جرمانہ کہاں سے ادا کریں گے۔
اس حوالے سے مدعی اسلم جاوید کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد کسی کو تکلیف میں ڈالنا نہیں، اس لیے اگر افضال ان کے پاس آئے تو وہ عدالت کے باہر معاملہ طے کرنے کو تیار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صارفین کے حقوق کے حوالے سے عدالتوں میں کیسے کیس آتے ہیں اور ان کا انجام زیادہ تر کیا ہوتا ہے؟ ایڈووکیٹ یوسف نسیم نے اس حوالے سے ایک واقعہ بتایا: ’ہمارے سینیئر وکلا بتاتے تھے کہ ایک وکیل نے، جو اب حیات نہیں، پرانے وقتوں میں پی آئی اے پر ایک روپے ہرجانے کا دعویٰ جیت جیتا اور پی آئی اے نے انہیں وہ ہرجانہ ادا بھی کیا تھا۔
’اب اس بات میں کتنی صداقت ہے اس کا تو علم نہیں مگر ہم وکیل اس واقعے کی مثال اکثر مقدموں میں دیا کرتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ آج کل سوشل میڈیا کے دور میں صارفین کو اپنے حقوق کے بارے میں علم ہے۔ ’کسی بھی قسم کی چیز جو آپ بازار سے خریدتے ہیں، اس میں نقص یا اس سے آپ کو کوئی نقصان پہنچے تو اس کے خلاف آپ صارف عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا البتہ کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے صارف فوڈ اتھارٹی سے رابطہ کرے تو زیادہ جلدی ایکشن ہوتا ہے۔ ایڈووکیٹ نسیم کے مطابق صارفین زیادہ تر ایسے مقدموں کو عدالت میں لانے سے اس لیے بھی گریز کرتے ہیں کیونکہ چیز کی قیمت اتنی ہوتی نہیں جتنی اس کے خلاف کیس لڑنے کے لیے وکیل کی فیس ہوتی ہے۔
’اگر صارف عدالت پہنچ بھی جائے تو زیادہ تر مقدموں میں عدالت سے باہر معاملہ طے پا جاتا ہے اور کیس عدالت سے خارج ہو جاتا ہے۔‘
سزاؤں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان مقدموں میں جیل یا قید کی سزا تو نہیں ہوتی البتہ ہرجانہ ہوتا ہے جو ادا کرنا پڑتا ہے۔
’ہاں سزا ان مقدموں میں ہو سکتی ہے جس میں فریق قانونی نوٹس بار بار جاری ہونے کے باوجود عدالت نہ پہنچے۔‘ ایڈووکیٹ نسیم نے صارفین کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ جب کسی دکان سے کوئی چیز خریدیں، چاہے وہ کتنی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو، اس کی رسید ضرور بنوائیں اور اسے سنبھال کر رکھیں کیونکہ صارف عدالت میں اپنا کیس لے کر تب ہی جا سکتا ہے جب اس کے پاس تمام تر ضروری رسیدیں موجود ہوں۔