بھارت کے ایک عہدے دار نے منگل کو کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعے پر شروع ہونے والے مذاکرات سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان دریائے سندھ پر بھارت کی جانب سے بجلی پیدا کرنے کے بڑے منصوبوں پر تنازعات پر بات چیت ہونا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق اس سے قبل دونوں فریقین میں جنوری 2019 میں اس معاملے پر مذاکرات ہوئے تھے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو خدشہ ہے کہ ہمالیائی خطے میں تعمیر کیے جانے بھارت کے پن بجلی کے منصوبے دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کمی کی وجہ بنیں گے۔
پاکستان میں زراعت کے لیے 80 فیصد پانی کا دارومدار اسی دریائے سندھ پر ہے۔ بھارت پکال دل اور لوئر کالانی ڈیموں کا دفاع کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ دونوں ڈیم ورلڈ بینک کی مدد سے کیے جانے والے سندھ طاس معاہدے کے مطابق ہیں۔
مذاکرات میں شریک ایک بھارتی عہدے دار نے بات چیت کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ’ہمارا کام درمیانی راستہ تلاش کرنا ہے لیکن یہ کہنا کہ ہم اس میں کامیابی حاصل کر سکیں گے ایک خوش گمانی ہو گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کئی ایسی چیزیں ہیں جن پر ہم سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔‘
بھارت نے بدھ کو شروع ہونے والے ان مذاکرات کے لیے باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ان مذاکرات میں تعطل کشمیر میں ہونے والی کشیدگی کی بدولت تھا جو مسلم اکثریتی علاقہ ہے اور پاکستان اور بھارت دونوں اس پر حق ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں کشمیر میں واقع لائن آف کنٹرول پر فائر بندی بھی شامل ہے۔