50 لاکھ افراد کا مسکن اور آبادی کے لحاظ سے بھارت کا چھٹا بڑا شہر، چینئی، تیزی سے پانی کی قلت کا شکار ہو رہا ہے۔
جون 2019 کے سیٹلائٹ سروے کے مطابق، چینئی کی جھیل پوزال، جو بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے، میں اس وقت پانی کی سطح گذشتہ برس کے مقابلے میں انتہائی کم رہ گئی ہے۔
شہر کے چار مرکزی ذخائر تقریباً خشک ہوچکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ 40 لاکھ افراد کنوؤں سے حاصل ہونے والے ناقابل استعمال پانی پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ پانی فراہم کرنے کے مقامی محکمے چنئی میٹرو واٹر نے بھی اپنی پانی کی فراہمی میں 40 فیصد تک کمی کردی ہے۔
پانی کی یہ کمی کئی ہفتوں قبل شروع ہوئی۔ اس تناظر میں بھارتی حکومت پر تنقید کی جارہی ہے کہ وہ کسی قسم کے اقدامات اٹھانے کے بجائے مون سون بارشوں کی آمد پر تکیہ کیے بیٹھی ہے۔ بھارت میں بارشوں کے نظام پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ کئی سالوں سے یہ تاخیر کا شکار ہے۔
مون سون بارشوں میں تاخیر کی وجہ سے لاکھوں افراد پانی کی قلت کا شکار ہیں، دوسری جانب پورے ملک میں ہیٹ ویو نے بھی تباہی مچا رکھی ہے اور اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چینئی میں ہونے والی ناقص شہری ترقی کی وجہ سے بھی پانی کو ری سائیکل کرکے قابل استعمال بنانا یا بارش کے پانی کو جمع کرنا ممکن نہیں ہے۔
رواں ماہ راجھستان کے علاقے چورو میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک جا پہنچا تھا، جو کہ 2016 میں ریکارڈ کیے گئے بھارت کے شدید ترین درجہ حرارت کے قریب قریب ہے۔
بھارت کے وزارت صحت نے شہریوں کے لیے شدید گرمی میں محفوظ رہنے کے حوالے سے ایڈوائزری بھی جاری کی ہے، جس میں دوپہر 12 سے سہ پہر تین بجے تک سورج کی دھوپ سے بچنے اور شراب، چائے اور کافی کے استعمال کو ترک کرنے جیسی ہدایات شامل ہیں۔
بھارت میں درجہ حرارت کے بڑھنے پر ہیٹ ویو آنا ایک معمول بنتا جارہا ہے۔
گذشتہ برس 1901 میں نیشنل ریکارڈ کی ترتیب کے بعد سے بھارت کا چھٹا گرم ترین سال تھا جبکہ 2004 کے بعد سے ریکارڈ کیے گئے 15 گرم ترین سالوں میں اس کا نمبر گیارواں تھا۔