طالبان نے افغانستان میں نئے انتخابات سے متعلق افغان صدر اشرف غنی کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی فیصلہ دونوں فریقین کے درمیان جاری مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کئی ماہ سے امن مذاکرات جاری ہیں لیکن ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
اب تک افغان صدر نے اس تجویز کو باضابطہ طور پر پیش نہیں کیا لیکن دو سرکاری عہدیداروں کے مطابق وہ اگلے مہینے ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں اس منصوبے کا اعلان کر سکتے ہیں۔
یہ منصوبہ امریکہ کے پیش کردہ اس منصوبے کو روکنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے جس میں اس نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان کی شمولیت کے ساتھ ایک عبوری حکومت کے قیام کی تجویز دی تھی۔ روس بھی اس تجویز کی حمایت کرتا ہے۔
ایک سینئیر عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’افغان حکومت قبل از وقت انتخابات کے منصوبے کے ساتھ ترکی جائے گی جو کہ افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک مناسب منصوبہ ہے۔‘
طالبان نے فوری طور پر افغان صدر کے اس منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان زبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ’ایسی حکمت عملی ماضی میں ملک کو بحران کے دھانے تک لے جا چکی ہے۔ وہ ایک ایسے منصوبے کی بات کر رہے ہیں جو ہمیشہ سے متنازعہ رہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کبھی ایسے کسی منصوبے کی حمایت نہیں کریں گے۔‘
فروری 2020 میں دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے مطابق امریکہ نے یکم مئی 2021 سے پہلے افغانستان سے اپنی فوج کا انخلا مکمل کرنا ہے لیکن امریکی صدر جو بائیڈن رواں مہینے کے آغاز میں ایسا کرنے کو ’مشکل‘ قرار دے چکے ہیں۔
دوسری جانب امریکہ، روس اور دیگر فریقین افغانستان میں ایک عبوری حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں لیکن افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کا تعین صرف ووٹنگ سے ہو سکتا ہے۔
میدان جنگ میں برتری کے باعث طالبان کو ان دونوں منصوبوں سے کچھ خاص فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
گذشتہ ہفتے ماسکو میں ہونے والی کانفرنس کے دوران طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کا کہنا تھا کہ افغانوں کو اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔