خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں چار نوجوانوں کے قتل کے خلاف آٹھ روزسے جاری دھرنے کے بعد منتظمین نے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیا ہے، جب کہ دوسری جانب تین صوبائی وزرا سمیت وزیر اعلیٰ محمود خان آج اتوار کو دھرنا منتظمین سے مذاکرات کرنے بنوں پہنچے تھے۔
یہ دھرنا بنوں سے تعلق رکھنے والے 13سے18 سال کی عمر کے درمیان چار دوستوں کے قتل کے خلاف ہو رہا ہے جو تقریباً ایک مہینہ پہلے شکار پر جانے کے بعد سے لاپتہ ہوگئے تھے اور سات دن پہلے ان کی مسخ شدہ لاشیں ندی کے کنارے ایک گڑھے سےبرآمد ہوئی تھیں۔
دھرنا منتظمین کی حکومتی نمائندوں کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن ابھی تک ان کے مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے۔ ہفتے کو حکومتی نمائندگی کرتے ہوئے علما کے ایک وفد نے دھرنا منتظمین کے ساتھ ملاقات کی لیکن وہ بھی یہ سود ثابت ہوئی۔
آج صوبائی وزرا پر مشتمل ایک ٹیم بنوں گئی تاکہ دھرنا منتظمین سے بات کر سکے۔
اس ٹیم میں صوبائی وزیر اطلاعات کامران بنگش، صوبائی مشیر سائنس و ٹیکنالوجی ضیا اللہ بنگش، وزیرٹرانسپورٹ شاد محمد خان اور ضلع کرک سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی ہشام انعام اللہ شامل تھے۔
ہشام انعام اللہ قبائلی رسم و رواج کے تحت ضلع کرک سے مشران (علاقے کے معتبر افراد) پر مشتمل ایک جرگہ بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے تاکہ بنوں جانی خیل کے مشران کے ساتھ جرگہ کر کے دھرنا ختم کرنے کا کوئی حل نکالیں۔
بنوں میں ہشام انعام اللہ خان کی قیادت میں پشتون روایت کے مطابق تین دنبے بھی ذبح کیے گئے اور جانی خیل قبائل نے جرگے کو قبول کیا۔
جانی خیل مشران سے حکومتی ٹیم کے مذاکرات کے بعد انھوں نے حکومتی ٹیم سے وقت مانگا ہے کہ وہ جانی خیل کے تمام قبائل کو اعتماد میں لے کر دھرنا اور مارچ ختم کرنے کا فیصلہ کریں گے۔
وزرا میں شامل ہشام انعام اللہ نے جانی خیل قبیلے کے مشران سے درخواست کی کہ حکومت ان کے مطالبات ماننے کے لیے تیار ہے اس لیے درخواست کرتے ہیں کہ لاشوں کو دفنایا جائے اور دھرنے کو ختم کریں۔
حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن اور صوبائی وزیر اطلاعات کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دھرنا شروع ہونے کے پہلے دن سے حکومت اس کوشش میں ہے کہ دھرنا منتظمین اور نوجوانوں کے ورثا سے بات کر کے ان کو حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی جائے کہ انہیں انصاف ملے گا۔
کامران نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے ہمیں مکمل اختیار گیا تھا کہ دھرنے والوں کے جتنے بھی جائز مطالبات ہیں ان سب کو مان لیا جائے۔کامران نے بتایا 'دھرنے والوں نے قتل ہونے والے شہدا کے لیے شہید پیکج کا مطالبہ کیا وہ ہم نے پہلے دن مان لیا تھا۔ دوسرا مطالبہ علاقے میں امن و امان کو یقینی بنانا تھا، اس کی بھی حکومت کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے اور اب بھی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ان کے دیگر جائز مطالبات ہیں تو ان کو بھی مان لیا جائے۔'
انھوں نے بتایا کہ ہمیں دھرنا منتظمین کے ساتھ بات کرنے میں مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ اس میں مختلف گروپس ہیں جن کے الگ الگ مطالبات ہیں۔
کامران نے بتایا 'میں میڈیا کے توسط سے دھرنا منتظمین کو درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایک بااختیار کمیٹی بنا کر ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں تو ہم ان کے ساتھ بات کر کے ان کے تمام جائز مطالبات ماننے کو پہلے بھی تیار تھے اور اب بھی تیار ہیں۔'
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان بھی بنوں جا کر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
انھوں نے وہاں پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ نہایت افسوس ناک اور ہم سب کے لیے دکھ اور رنج کا باعث ہے اور میں شروع دن سے ہی اس واقعے کے سلسلے میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا ہوں۔
محمود خان نے بتایا 'آج میں خود بنوں آیا ہوں اور یہ واقعہ ہماری حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج ہے اور ہم اس چیلنج سے منہ نہیں موڑیں گے۔ فرانزک اور تفتیشی ماہرین کے ذریعے واقعے کی تحقیقات کروائیں گے اور لواحقین کو انصاف دلوائیں گے۔'
دھرنا منتظمین کے لانگ مارچ کی کیا صورتحال ہے؟
آٹھ دن دھرنا دینے کے بعد منتظمین آج صبح اسلام آباد لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کر کے وہاں سے نکل گئے تھے۔ مظاہرین اپنے ساتھ بستر کمبل سمیت کھانے پکانے کے لیے چولہے بھی لے کر گئے ہیں۔
دھرنا منتظمین میں شامل لطیف وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کو بتایا کہ جب دھرنے میں شامل لوگ مارچ کے لیے نکلے تو راستے میں پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور ہمیں آگے جانے سے روکا گیا۔
تاہم لطیف کے مطابق بعد میں مظاہرین کو آگے جانے کی اجازت مل گئی اور اب یہ مارچ بنوں سٹی میں داخل ہوگیا ہے جہاں پر احمد زئی وزیر قبیلے کے لوگ ان کا انتظار کر رہے ہیں اور وہاں پر پہنچ کر یا تو رات گزاریں گے اور یا آگے جائیں گے۔
لطیف سے جب حکومتی ٹیم کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ہم نے حکومتی وزرا کو کہا تھا کہ وہ بنوں میں ایک پل پر پہنچ جائیں کیونکہ مظاہرین وہاں موجود تھے، تو دھرنا منتظمین ان سے بات کریں گے، تاہم وہ نہیں آئے۔
لطیف کے مطابق ہمارے وہی مطالبات ہیں جو پہلے دن سے ہیں لیکن حکومت تما م طالبات کو ماننے سے انکاری ہے ۔
دھرنا منتظمین کے مطالبات کیا ہیں؟
لطیف وزیر نے بتایا کہ ہم نے تین مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں جن میں پہلا مطالبہ قتل شدہ نوجوانوں کو شہدا پیکج کا اعلان ہے جس کو حکومت نے مان لیا ہے۔
دوسرا مطالبہ لطیف کے مطابق یہ ہے کہ علاقے میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنایا جائے لیکن اس مطالبے پر حکومت کی طرف سے ابھی تک خاطر خواہ جواب نہیں ملا ہے۔
لطیف نے بتایا 'تیسرا مطالبہ ہمارا سیکورٹی ادارے کے ایک افسر کے خلاف اس واقعے کا مقدمہ درج کرنا ہے تاہم اس مطالبے میں ہم نے ایک آپشن یہ بھی دیا ہے کہ اگر یہ نہیں ہو سکتا ہے تو ہمارے لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کر کے ان پر عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔'
بنوں پولیس انتظامیہ کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی بھی ادارے کے ملازم پر بغیر کسی وجہ کے کیسے مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی تو قانون میں گنجائش ہے اور نہ پاکستان پینل کوڈ میں ایسا کوئی شق موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انھوں نے بتایا کہ کسی بھی جرم میں ملزم کا نام تب ہی شامل ہو سکتا ہے جب اس ملزم کا جرم کے ساتھ کوئی تعلق ہو۔
انھوں نے بتایا 'اس طرح کسی بھی دنیا میں کسی فرد پر مقدمہ درج نہیں ہو سکتا اور اگر ہم نے ایسا کیا تو پاکستان میں یہ ایک روایت بن جائے گی اور ہر کوئی اٹھ کر کسی شخص کو کسی بھی جرم کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان پر مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کرے گا۔'
کامران بنگش نے اس مطالبے کے حوالے سے بتایا کہ دھرنا منتظمین اس مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ دھرنا منتظمین کی جانب سے ایک با اختیار کمیٹی ابھی تک موجود نہیں ہے جو ہمیں اپنے فائنل جائز مطالبات دے دے اور ہم ان کو مان لیں۔
بنگش نے بتایا 'ابھی مذاکرات کے فائنل راؤنڈ میں حکومتی جرگے نے دھرنا منتظمین سے بھی یہی مطالبہ کیا ہے کہ کم از کم دس افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کا انتخاب کریں تاکہ ہم ان سے بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں اور امید ہے کہ دھرنا منتظمین اس حوالے سے مثبت اپروچ اپنائیں گے۔'