پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک مرتبہ پھر بہتر تعلقات کے لیے مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب یہ بھارت پر منحصر ہے اگر وہ پانچ اگست کے فیصلے پر نظرثانی کرتا ہے تو پاکستان پہلے سے ہی امن کو ترجیح دیتا ہے۔
دوشنبہ میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے اختتام پر انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انہوں نے محسوس کیا ہے کہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں ماضی کی طرح پاکستان پر نکتہ چینی نہیں کی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’بھارت نے ماضی کی طرح پاکستان پر انگلیاں نہیں اٹھائیں جو وہ عام طور پر اٹھایا کرتے تھے تو کم از کم اتنی تبدیلی میں نے محسوس کی ہے۔‘
بھارتی ہم منصب جے شنکر سے ملاقات کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’ہم دونوں ہی اپنی اپنی میٹنگز میں مصروف تھے اس لیے ملاقات نہ ہو سکی۔‘
پاکستانی وزیر خارجہ نے عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ سازگار ماحول بھارت کو پیدا کرنا ہے، معنی خیز اور کشمیر کے دیر پا حل تک ماحول سازگار نہیں ہو سکتا۔‘
’اب ہندوستان پر منحصر ہے اگر وہ پانچ اگست کے فیصلے پر نظرثانی کرتا ہے تو پاکستان پہلے سے ہی امن کو ترجیح دیتا ہے۔‘
انہوں نے کہا سیز فائر کی بحالی ایک مثبت قدم ہے جس کو کشمیریوں نے بھی سراہا ہے۔ ’اب ہندوستان کو سوچنا ہو گا کہ ہمسایوں کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔‘
افغانستان کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے پوری مدد کی ہے کہ امن کا عمل آگے بڑھے، تمام فریقین آمنے سامنے بیٹھیں لیکن اس کا فیصلہ افغانستان کے لوگوں نے کرنا ہے کہ انہیں اپنے ملک میں کیسے حالات چاہییں۔
افغان صدر نے امن عمل میں کردار حوالے سے پاکستان کا نام لے کر شکریہ ادا نہیں کیا جبکہ باقی ممالک کا نام لیا؟ اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’افغان صدر نے جب ہارٹ آف ایشیا رکن ممالک کا ذکر کیا تو پاکستان کا بھی شکریہ ادا کیا اس کے علاوہ افغان وزیر خارجہ نے بھی پاکستان کے مثبت کردار کو سراہا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت کے حوالے سے بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش کی جانب سے بہتری کے اشارے مل رہے ہیں، ’مجھے لگتا ہے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات موجود ہیں۔‘
’ہماری بھی یہی خواہش ہے، ہم ماضی سے باہر نکلیں اور پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا ہے۔ دونوں ملک مختلف فورم میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں جس کا دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا۔‘
ایران حوالے سے سوال پر پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران اور پاکستان کی طویل سرحد ہے، ’چاہتے ہیں کہ اس سرحد پر امن رہے اسی مقصد کے لیے باڑ لگانے کا عمل بھی جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ بات چیت میں طے کیا ہے کہ اگر سرحد کے دونوں اطراف کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس سے کیسے نمٹنا ہے۔
ایران کے ساتھ سرحدی مارکیٹ کی بات کی ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف مارکیٹس بنائی جائیں جس سے سرحد کے دونوں اطراف لوگ مستفید ہوسکیں اور تجارت بڑھ سکے اور ایران اس معاملے پر رضامند ہے۔