شام کے حوالے سے امریکی حکومت میں ایک اعلیٰ عہدے پر رہنے والے امریکی سفارت کار نے دعویٰ کیا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد اسرائیل سے گولان کی پہاڑیوں کے بدلے اسرائیل اور لبنان کے درمیان صلح کرانے کو تیار تھے۔
اس کے علاوہ وہ ایران اور حزب اللہ کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کو بھی تیار تھے۔
فریڈرک سی ہوف نے بدھ کو دی نیوز لائنز آن لائن میگزین کو بتایا کہ بشار الاسد نے یہ پیشکش دمشق کے تشرین محل میں 28 فروری، 2011 کو ہونے والے ایک اجلاس کے دوران کی۔
ہوف اس وقت شام میں اوبامہ انتظامیہ کے خصوصی نمائندے کے طور پر تعینات تھے۔ گولان کا پہاڑی علاقہ شام کا حصہ ہے، جس پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔
اسرائیل نے 1981 میں مقبوضہ علاقوں کا اپنے ساتھ الحاق کر لیا تھا لیکن عالمی برادری اس خطے کو شامی علاقے کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ دنیا کی واحد حکومت جس نے اس خطے کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا ہے وہ امریکہ ہے۔
یہ پہاڑی خطہ اسرائیل، شام اور لبنان تینوں ممالک کی سرحد پر واقع ہے۔ لبنان (اور خاص طور پر لبنانی حزب اللہ) کا دعویٰ ہے کہ اس علاقے کا ایک چھوٹا سا حصہ ’شیبہ فارمز‘ شام کا نہیں بلکہ لبنانی علاقے کا حصہ ہے اور اسی وجہ سے اسرائیل لبنانی سرزمین پر قبضہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔
اسرائیلی افواج نے تقریباً 20 سال کے بعد سال 2000 میں لبنان پر اپنا قبضہ ختم کیا تھا۔
فریڈرک سی ہوف کے مطابق بشارالاسد نے فروری 2011 کے اجلاس میں کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کو ان کی حکومت کو واپس کر دیا تو وہ ’شیبہ فارمز‘ کے بارے میں حزب اللہ کے دعوؤں کو سختی سے مسترد کر دیں گے اور ایران کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات ختم کر دیں گے جبکہ وہ اسرائیل اور لبنان کے مابین امن معاہدے میں بھی مدد کریں گے جو حزب اللہ کو کمزور کر دے گا۔
امریکی سفارت کار نے بتایا کہ یہ ملاقات ان کے اور شام کے وزیر خارجہ ولید معلم کے درمیان 2009 میں شروع ہونے والے سفارتی عمل کا ایک حصہ تھی۔
ولید معلم طویل عرصے تک گولان کی واپسی کے بدلے اسرائیل اور شام کے درمیان امن کا مطالبہ کرتے رہے تھے۔ تجربہ کار سفارت کار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دمشق کو تہران اور حزب اللہ سے دور ہو جانے کا مشورہ دیتے تھے۔
ہوف کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو بھی ایسے معاہدے میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن وہ اسد کے اخلاص پر شک کرتے تھے۔
امریکی سفارت کار نے، جو بارڈ کالج میں سفارت کاری کی تعلیم دیتے ہیں، اسد کے ساتھ ملاقات کو اپنی زندگی کا ایک ’سب سے یادگار تجربہ‘ قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں خود بھی اس بات کا یقین نہیں کہ بشار الاسد اپنا وعدہ پورا کرسکتے تھے۔
اپنی جلد منظرعام پر آنے والی کتاب میں ہوف اس ملاقات اور دمشق اور تل ابیب کے مابین امن کی کوششوں کی مکمل کہانی سنانے کے لیے تیار ہیں۔
بل کلنٹن کی صدارت کے دوران اسرائیل اور شام (صدر حافظ الاسد کے ماتحت) کے مابین امن عمل میں شدت آگئی تھی لیکن دونوں ملک اس حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے تھے۔
2008 میں شام اور اسرائیل کے مابین مذاکرات ہوئے تھے۔ ان مذاکرات میں شریک شام کے وزیر اعظم کے سابق مشیر سمیر التقی کے مطابق اسد نے امن معاہدے پر پہنچے بغیر دونوں ممالک کے مابین جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
تقی کے مطابق اس وقت اسرائیل ایران اور حزب اللہ کے ساتھ دمشق کے تعلقات میں تبدیلی کا خواہش مند تھا لیکن اسد ایران کے معاملے کو دیگر تمام معاملات پر بات چیت کے بعد اٹھانا چاہتے تھے۔
اسد کے ایران کے کافی قریب ہونے کے باوجود بھی شام اور اسرائیل کے مابین رابطے منقطع نہیں ہوئے تھے۔
کچھ اطلاعات کے مطابق رواں سال جنوری میں شامی، اسرائیلی اور روسی انٹیلیجنس حکام کے مابین سہ فریقی اجلاس ہوا جس میں بشار الاسد نے ذاتی طور پر شرکت کی۔ علاقائی میڈیا کے مطابق یہ اجلاس شام میں روس کے زیر انتظام ہیمیم ائیر بیس پر ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شام کے وزیر اطلاعات اور سعودی عرب میں سابق سفیر مہدی دخل اللہ نے شام کے سرکاری ٹیلی ویژن سے ’اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے امکان‘ کے بارے میں بھی بات کی ہے۔
التقی نے حال ہی میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اسرائیل کا گولان شام کو واپس کرنے کا امکان نہیں ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’گذشتہ مذاکرات کے اپنے تجربے کی بنیاد پر میں توقع نہیں کرتا کہ اسرائیل گولان کی پہاڑیوں میں شامی شہریوں کو محدود رسائی کے علاوہ کچھ بھی پیش کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل جنوبی شام کے لوگوں کے لیے انسانی ہمدردی پر مبنی امداد فراہم کرسکتا ہے اور بشار الاسد کو مشرق وسطیٰ میں سپین کے سابقہ ڈکٹیٹر جنرل فرانکو کی طرح رہنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل شام میں ایران کی موجودگی پر ’گہری تشویش میں مبتلا ہے‘ اور اسے اپنے لیے ’جوہری خطرہ‘ قرار دیتا ہے۔