نیب کے سوالات سے خوف زدہ تاجر عدالت پہنچ گیا

درخواست گزار کے وکیل کا موقف ہے کہ ان کے مؤکل سے اس طرح کے سوالات کیے گئے ہیں جن سے ان کا وقار مجروح ہوا ہے اور انہیں ذہنی اذیت اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے حالانکہ یہ محض ٹیکس چوری اور مائیننگ رولز کی خلاف ورزی کا کیس بنتا ہے۔

(پکسابے)

بلوچستان ہائی کورٹ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کیس دائر ہوا ہے جس میں قومی احتساب بیورو بلوچستان کی جانب سے ایک شخص کو نوٹس دیا گیا ہے جن کا موقف ہے کہ اگرچہ ان پر لگائے گئے الزام سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن انہوں نے نیب حکام کی جانب سے گرفتاری کے خوف سے پٹیشن دائر کی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل محمد ریاض احمد ایڈوکیٹ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے مؤکل سے اس طرح کے سوالات کیے گئے ہیں جن سے ان کا وقار مجروح ہوا ہے اور انہیں ذہنی اذیت اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے حالانکہ یہ محض ٹیکس چوری اور مائیننگ رولز کی خلاف ورزی کا کیس بنتا ہے۔

عدالت عالیہ کی جانب سے نیب کو نوٹس بھجوایا گیا جس پر نیب نے درخواست گزار کے دعوے کے جواب میں بیان حلفی جمع کرایا۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے دائرکی گئی پٹیشن کی سختی سے مخالفت کی۔

نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگرچہ درخواست گزار کو نوٹس بھجوایا گیا تھا اور انہیں کچھ کاغذات فراہم کرنے کا کہا گیا کیونکہ وہ حکومت کو سرفیس رینٹ ادا کئے بغیر ڈیرہ بگٹی کے سوئی نالہ سے ریت نکال کر لے جا رہے تھے۔

گرفتاری کے وارنٹ نہیں جاری کیے گئے۔ عدالت نے کہا کہ نیب کے متاثرین کو جو غیر انسانی سلوک بھگتنا پڑتا ہے وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 14 اور ملک کی اعلی عدالتوں کی جانب سے بار بار کی ہدایت اور کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

تاجر کے خلاف ایک پرائیویٹ شکایت کنندہ نے  نیب میں شکایت کی تھی کہ مذکورہ تاجر ڈیرہ بگٹی کے سوئی نالہ سے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے این او سی کے بغیر ریت نکال رہا ہیں جو بلوچستان مائنز اور منرل رولز 2000 کی دفعات کی خلاف ورزی ہے جس پر29 جنوری 2021 کو نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 19 کے تحت نیب حکام کی جانب سے درخواست گزار کو پیش ہونے کا نوٹس موصول ہوا۔

 عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہاں ضروری بات یہ ہے کہ درخواست گزار پرائیویٹ فرد ہے اور وہ پبلک آفس ہولڈر بھی نہیں اوران کے خلاف کارروائی بھی غیر سرکاری/ پرائیویٹ شکایت کنندہ کی شکایت  پر شروع کی گئی۔

اس ضمن میں شکایت کنندہ کی جانب سے بد نیتی اور ممکنہ غلط الزام کا عنصر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا  جس کی  مزید تفتیش کی جانی چاہیے تھی۔ معزز عدالت نے درخواست گزار کے بیان حلفی کابھی جائزہ لیا جس میں درخواست گزار سے کیے گیے سوالات کی تفصیل پیش کی گئی تھی۔ 

 عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ کئی کیسز میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور تفتیشی افسر جنہیں شہریوں کی حفاظت کی ڈیوٹی دی گئی ہے وہ بذات خود غیر انسانی سلوک میں ملوث ہوجاتے ہیں جس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ آیا ایسے افسران کو تفتیش جیسی اہم ا ور مقدس  ڈیوٹی دی جانی چاہیے جن کے دل میں انسانیت کے لیے کوئی عزت نہیں ہے۔

یہ امر باعث تشویش ہے کہ فرد کے وقار کا حق جو اسے بحیثیت پاکستانی شہری کے حاصل ہے وہ واحد حق ہے جو کسی بھی قانون کے تابع نہیں۔ تاہم اسی حق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔یہ خلاف ورزی ریاستی عہدے داروں کی طرف سے خاص طور پر کی جاتی ہے۔

معزز عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کا حلفیہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ تفتیشی افسر نے یا  تو اپنی مجرمانہ ذہنیت کی بنا پر غیر ضروری  اور توہین آمیز سوالات درخواست گزار کو اذیت دینے اور بے عزت کرنے کے لئے پوچھے ہیں یا پھر تفتیشی افسر، ان اداب سے نا آشنا ہیں جن کے تحت کوئی انکوائری یا تفتیش کی جاتی ہے۔

 بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل بینچ نے ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان اور دیگر کے خلاف دائر آئینی درخواست میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 14 ملزم کو دوران تفتیش بے عزت کرنے، گالم گلوچ یا تشدد کا نشانہ بنانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دیتا۔

بلاشبہ نیب کے افسرکرپشن میں ملوث ایسے افراد سے پوچھ گچھ کرتے ہیں جن میں سے کئی ایک کو بعد ازاں ٹرائل کے بعد عدالتوں سے مجرم  بھی ٹھہرایا جا تاہے لیکن مذکورہ دفعہ آئین کے باب ایک حصہ دوم میں موجود آدمیت کے وقار سے متعلق وہ واحد غیر مشروط ضمانت ہے جو قانون کے تابع نہیں ہے۔

معزز عدالت نے مزید کہا کہ کسی بھی شہری کا یہ بنیادی حق جب بھی غصب ہو گا یا اس کی شکایت کی جائے گی تو عدالت ضرور آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے مداخلت کرے گی اور قانون و انصاف کے مطابق فیصلہ کرے گی۔

 ماہرین قانون کیا کہتے ہیں؟

ماہر قانون حبیب طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا : ' کسی بھی کیس میں تفتیش کے دوران ملزم کو ہراساں کرنا،عزت نفس مجروح کرنا غیرقانونی ہے ۔ حتی کہ اگر کوئی قتل کا مجرم بھی ہے تو اسے بھی تشدد کا نشانہ بنانے کی قانون اجازت نہیں دیتا ہے۔’

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ریمانڈ میں دینے کا مطلب مار پیٹ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اصل میں اس کا مقصد کیس کے حوالے سے معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ '

انہوں نے بتایا کہ اب نیب کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی شخص سے بدعنوانی کے کیس کی صورت میں90 دن تک تفتیش کرسکتا ہے جو بنیادی طور پر صرف 14روز کی جاسکتی ہے۔

حبیب طاہرکا کہنا تھاکہ فرض کریں اگر کسی نے کوئی قتل کیا ہے اور تفتیش کے دوران ان سے پوچھا جائے کہ بتا ئیں کہ یہ بنگلہ کیسے بنایا؟تو یہ درست نہیں ہوگا۔ قانون کے مطابق ملزم سے صرف اسی کیس کے بارے میں ہی پوچھا جاسکتا ہے جس کا اس پر الزام ہے۔

حبیب طاہر کے بقول مذکورہ کیس میں بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اگر غیر قانونی کام کا معاملہ ہے تو اس پر پولیس، لیویز اور ضلعی انتظامیہ کارروائی کرسکتی ہے۔ لیکن نیب کا دائرہ اختیار نظر نہیں آتا ہے۔ نیب کا ادارہ بنیادی طور پر بدعنوانی روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر بدعنوانی ہوتی ہے تو وہ کارروائی کرسکتا ہے۔

عدالت نے فیصلے کی کاپی ڈی جی نیب بلوچستان کو ارسال کرنے کے احکامات دیے ہیں تاکہ وہ اس معاملے کو بذات خود دیکھیں اور وہ مذکورہ کیس کی اہل، خودمختار اور دیانت دار آفیسر سے شفاف تفتیش کے لیے اقدامات کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان