بلوچستان حکومت ریکوڈک منصوبے پرعالمی عدالت کے ممکنہ جرمانے سے بچنے کے لیے ٹی تھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) سے دوبارہ معاہدہ کرنے پر غور کر رہی ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے بلوچستان حکومت کا عالمی عدالت میں کیس کمزور ہے لہذا ٹی سی سی کا موقف تسلیم کرتے ہوئے ہم پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
لیاقت شاہوانی کے مطابق، یہ بات واضح ہے کہ نہ صرف بلوچستان بلکہ وفاق کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں کہ وہ خود ریکوڈک منصوبے کو چلا سکے۔
انہوں نے کہا: بلوچستان حکومت کی کوشش ہے کہ عالمی عدالت کے جرمانے سے بچنے کے لیے ٹی سی سی سے عدالت کے باہر معاملات نمٹائے جائیں، ایسے میں اگر کمپنی کے ساتھ دوبارہ معائدہ کرنا پڑا تو اس حوالے سے بھی صوبائی حکومت حکمت عملی بنا رہی ہے۔
لیاقت شاہوانی کہتے ہیں کہ مقدمہ ہارنے کی صورت میں ممکنہ طور پر بلوچستان حکومت پر چھ سے آٹھ ارب ڈالرز کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاک ۔ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ضلع چاغی کی تحصیل نوکنڈی میں ریکوڈک کے علاقے میں سونے اور کاپر کے وسیع ذخائر کا تعین کرنے کیلئے ٹی تھیان اور انٹو فوگسٹا، بیرک گولڈ کارپوریشن نے مل کر اگست 2010 میں کام شروع کیا تھا۔
چاغی کے سینئر صحافی نور احمد بلوچ کے مطابق ریکوڈک میں سونے اور کاپر کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے تھے جس سے امید ہوچلی تھی کہ اس کا فائدہ بلوچستان باالخصوص چاغی کو پہنچے گا۔
نور احمد کے مطابق ریکوڈک منصوبے پر مقامی آبادی کو کسی قسم کے تحفظات نہیں تھے کیونکہ یہاں کے لوگ سمجھتے تھے کہ عالمی کمپنی کی چاغی آمد اور حکومت سے کیے گئے معاہدے سے عوامی فلاح کیلئے ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں گے۔
اسی بارے میں مزید پڑھیے
پاکستانی فوج کی ریکوڈک منصوبہ چلانے کی خواہش؟
نور احمد کے بقول: مقامی لوگ اس بات پر خوش تھے کہ غیر ملکی کمپنی کے آنے سے نہ صرف روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے بلکہ علاقے کے نوجوانوں کو ملازمتیں ملنے کے ساتھ علاقے کی سڑکوں کی تعمیر و مرمت، سکول اور صحت جیسی سہولیات کی فراہمی بھی کمپنی کے ذمہ داریوں میں شامل ہو گی۔
عالمی عدالت میں ریکوڈک کیس کی پیروی کرنے والے سینئر قانون دان احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ جب وہ مقدے کی پیروی کررہے تھے تو کسی حد تک مقدمہ ان کے حق میں تھا اور عدالت نے کمپنی کو مزید مائننگ سے روک دیا تھا۔
احمر بلال صوفی کے مطابق: عدالتی فیصلے کے تحت ٹی سی سی کے پاس ریکوڈیک پر مائننگ کے حقوق نہیں رہے اور کمپنی اب صرف فزیبلٹی پر خرچ ہونے والی رقم کی دعوے دار ہے۔
واضح رہے کہ 2013 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تین رکنی اپیکس بینچ نے ٹی تھیان کمپنی کا بلوچستان حکومت کے ساتھ ریکوڈک پر کام کرنے کا منصوبہ ملکی قوانین سے متصادم قرار دے کر معاہدہ منسوخ کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس سے قبل ریکوڈک منصوبے کے معاہدے اور منافعے میں وفاق کا کوئی حصہ نہیں تھا جس کی وجہ سے اس منصوبے کو منسوخ کرنا پڑا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق چونکہ اب اٹھارویں ترمیم کے بعد ایسے تمام منصوبوں پر معاہدے کا حق صوبے کو حاصل ہے لہذا اگر حکومت بلوچستان کمپنی کے ساتھ دوبارہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو منصوبے کا منافع بھی صوبے کو ملے گا اور پسماندگی کم کرنے میں مدد ملےگی۔