اسلام آباد کے 16 سالہ محمد بن شکیل احمد حال ہی میں قرآن حفظ کرنے کے بعد اس رمضان میں نماز تراویح پڑھا رہے ہیں۔
عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ ایک حافظ قرآن حفظ کرنے کے بعد سیدھا مسجد میں جا کر نماز تراویح پڑھانا شروع کر دیتا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
ایک حافظ قرآن کو نہ صرف اپنا حفظ، تلاوت اور ادائیگی میں پختگی لانے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس میں نماز تراویح کی امامت کے لیے بے پناہ اعتماد بھی ہونا چاہیے۔
ایک ناتجربہ کار حافظ بھری مسجد میں قرآن کی زبانی تلاوت کرتے ہوئے نروس ہو سکتا ہے اور اس سے غلطی کا خدشہ بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
اسی لیے نئے حافظ کو سیدھا مسجد میں نماز تراویح پڑھانے کے لیے نہیں بھیجا جاتا بلکہ وہ پہلے سال اپنے گھر میں یا قریبی حلقے کو تراویح پڑھاتا ہے۔
یوں اسے اعتماد ملتا ہے اور بعد ازاں مسجد میں بڑی جماعت کی امامت کرتے ہوئے تلاوت میں غلطی کا امکان بھی کم سے کم رہ جاتا ہے۔
محمد بن شکیل نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز اسی طرح کیا ہے۔ وہ یکم رمضان سے اپنے گھر میں نماز تراویح کی امامت کر رہے ہیں۔
ابتدائی تعلیم اسلام آباد کے ایک سیکولر سکول سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ایف سیون کے محمدیہ مدرسے قرآن حفظ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اس سال تو وہ گھر پر ہی نماز تراویح پڑھائیں گے تاہم آئندہ رمضان میں وہ کسی مسجد میں نماز تراویح کی امامت کا ارادہ رکھتے ہیں۔
محمد بن شکیل سے ملاقات میں ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حفظ کرنے والا کس طرح قرآن کو زبانی یاد کرتا ہے اور اسے کتنی زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ حفظ کرنے کے بعد بھی ایک حافظ ساری عمر مشق کرتا رہتا ہے۔
ایک حافظ جس قرآن کے نسخے سے حفظ کرتا ہے وہ اس کے لیے بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ اس قرآن کے نسخے کے صفحات کی تصاویر اس کے دماغ میں بیٹھ جاتی ہیں اور یوں وہ اپنی فوٹو میموری استعمال کرتے ہوئے بعد میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔
اسی وجہ سے ہر حافظ حفظ کرنے کے بعد اپنے قرآن کے نسخے کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیتا ہے اور اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہے اور اسی سے حفظ کی مشق کرتا ہے۔