زمین پر بھیجی گئی تصویر اور ڈیٹا کے مطابق خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے روبوٹ ہیلی کاپٹر ’انجینیوئٹی‘ نے پیر کو مریخ پر پہلی کامیاب پرواز کی ہے۔
ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے ایک انجینیئر نے اعلان کیا کہ ’بلندی ناپنے والے آلے کی مدد سے تصدیق کی گئی ہے کہ ہیلی کاپٹر نے پہلی کامیاب پرواز کی ہے۔ یہ کسی دوسرے سیارے پر ایسے کسی ہیلی کاپٹر کی پہلی پرواز تھی، جس میں علیحدہ انجن لگا ہوا ہے۔‘
اس اعلان پر کنٹرول روم میں موجود افراد نے خوشی کے نعرے لگائے۔ ناسا کی طرف سے مریخ پر بھیجی گئی گاڑی ’پرسویئرنس‘ نے مختصر ویڈیو کلب زمین پر بھیجی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پہلے سطح پر کھڑا چار پاؤنڈ وزنی ہیلی کاپٹر تین میٹر تک سیارے کی فضا میں بلند ہوا اور اس کے بعد واپس اتر گیا۔
ہیلی کاپٹر میں نیچے کی طرف لگے کیمرے سے کھینچی گئی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویرمیں ہیلی کاپٹر کا سیارے کی سطح پر پڑتا سایہ دکھائی دے رہا ہے۔
ٹیم کی قیادت کرنے والی انجینیئر می می اونگ نے بتایا: ’اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانوں نے کسی دوسرے سیارے پر ہیلی کاپٹر اڑایا ہے۔ ہم بڑے عرصے سے اپنے ’رائٹ برادرز‘ جیسے لمحے کی بات کرتے آ رہے ہیں اور اب وہ لمحہ آ چکا ہے۔‘
یاد رہے کہ زمین پر سب سے پہلا انجن والا طیارہ امریکی ریاست شمالی کیرولائنا کے علاقے کٹی ہاک میں دوبھائیوں اورویل اور ولبر رائٹ نے اڑایا تھا، جنہیں دنیا رائٹ برادرز کے نام سے جانتی ہے۔
بلندی ناپنے والے آلے کے ڈیٹا کے مطابق طے شدہ منصوبے کے تحت ہیلی کاپٹر 10 فٹ تک بلند ہوا اورپورے 30 سیکنڈز تک پرواز کرتا ہے۔ اس دوران وہ متوازن نظر آیا جبکہ سطح پر واپسی بھی ایسی ہی تھی۔ پرواز اور واپس سطح پر اترنے کے لیے ہیلی کاپٹر کے الٹے گھومنے والے پنکھوں کو ایک منٹ میں ڈھائی ہزار چکر کی رفتار سے گھومنے کی ضرورت تھی۔ یہ رفتار زمین کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔ مریخ کی فضا کی کثافت زمینی فضا کا ایک فیصد ہے اس لیے انجینیئرز کو ایک بہت ہلکا ہیلی کاپٹر تیار کرنا پڑا۔ اس کے پنکھے اتنی تیزی سے گھومتے ہیں کہ وہ غیرزمینی فضا میں بلند ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی ہیلی کاپٹر کا اتنا مضبوط ہونا بھی ضروری تھا کہ وہ مریخ کی ہوا اور انتہائی شدید سردی کا مقابلہ کرسکے۔
اس ہیلی کاپٹر کی تیاری میں چھ سال لگے۔ اس کی اونچائی 19 انچ ہے اورچار ٹانگیں ہیں۔ اس کے نچلے حصے میں تمام بیٹریاں، ہیٹرز اور سینسر لگائے گئے ہیں۔ اس حصے کا حجم ٹشو پیپر کے ڈبے جتنا ہے۔ کاربن فائبر سے بنائے گئے پنکھوں میں جھاگ بھری گئی ہے، یہ اس کا سب سے بڑا حصہ ہیں۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہر جوڑے کی لمبائی چار فٹ ہے۔ طیارے کے اوپر والے حصے پر سولر پینل لگایا گیا ہے جو ان بیٹریوں کو ری چارج کرتا ہے جومریخ پر رات کے وقت منفی 90 درجے سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں بقا کے لیے ضروری ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ناسا نے ہیلی کاپٹر کے ایئرفیلڈ کے طور پر مریخ کی ہموار اور چٹانوں سے نسبتاً پاک حصے کا انتخاب کیا ہے، جس کی لمبائی اور چوڑائی 33 فٹ ہے جو مریخ کے جزیرو نامی گڑھے میں اترنے کے اصل مقام سے ایک سو فٹ کم ہے۔ ہیلی کاپٹر کو تین اپریل کو گاڑی کے ذریعے ایئرفیلڈ میں لے جایا گیا جبکہ اس پرواز کے احکامات اتوار کو دیے گئے۔ اس سے پہلے ہیلی کاپٹر کو کنٹرول کرنے والوں نے سافٹ ویئر لنک بھیجا تھا تاکہ اس کے پنکھے گھوم سکیں۔ اتوار کی کامیابی کے بعد ناسا نے مریخ کے ایئرفیلڈ کو ’رائٹ برادرزفیلڈ‘ کا نام دے دیا ہے۔
جب بڑا کام انجام دینے والے اس ننھے ہیلی کاپٹر کو گذشتہ جولائی میں خلائی گاڑی ’پرسویئرنس‘ کے ذریعے لانچ کیا گیا تو اس نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کرلی، حتیٰ کہ اداکار آرنلڈشوارزنیگر بھی ویک اینڈ پر اس ہیلی کاپٹر کے حوالے سے تفریح میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ہیلی کاپٹر کی طرف جاؤ!‘ یہ الفاظ ان کی سائنس فکشن فلم ’پریڈیٹر‘ کے ڈائیلاگ ہیں جو 1987 میں ریلیز ہوئی تھی۔
ناسا نے ہیلی کاپٹر کی پانچ پروازوں کا منصوبہ بنا رکھا ہے، جن میں ہر ایک کے لیے دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ کامیابی کی صورت میں اس مظاہرے سے آنے والی دہائیوں میں ڈرون طیاروں کا ایک بیڑا مریخ پر بھیجنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے جو فضائی نظارے، سامان کی ترسیل اور انسانوں پر مشتمل عملے کی تلاش کی خدمات انجام دیں گے۔ زمین پر موجود ٹیکنالوجی ہیلی کاپٹرز کو نئی بلندیوں تک لے جاسکتی ہے اور ہمالیہ کے پہاڑوں کی سیاحت جیسے کام زیادہ آسانی سے کیے جا سکیں گے۔
ہیلی کاپٹر کی ٹیم کو مئی کے آغاز تک آزمائشی پروازیں مکمل کرنی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مریخ پر موجود گاڑی اپنا بنیادی مشن پورا کرے گی۔ اس مشن کا مقصد مریخ کی چٹانوں کے نمونے حاصل کرنا ہے جو سیارے کی ماضی کی زندگی کے بارے میں شواہد ہو سکتے ہیں۔ یہ گاڑی اب سے10 سال بعد زمین پر واپس آئے گی۔ تب تک ’پرسویئرنس‘ ہیلی کاپٹر کی نگرانی کرے گی۔ فلائٹ انجینیئرز نے انہیں پیار سے ’جنی‘ اور ’پرسی‘ کا نام دے رکھا ہے۔ کیمرہ چلانے والی ٹیم کی سربراہ ایلسا جنسن نے کہا کہ ’بڑی بہنیں دیکھ رہی ہیں۔‘ جنسن کا تعلق ٹیکنالوجی کمپنی میلن سائنس سسٹمز کے ساتھ ہے۔