یہ اگست 2011 کی بات ہے جب شمالی لندن کے علاقے ٹوٹنہم میں پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ اس ہلاکت کے بعد مظاہرے شروع ہو گئے اور چند ہی روز میں یہ مظاہرے فسادات میں تبدیل ہو گئے جنھوں نے لندن کے بہت سے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
فسادات کرنے اور لوٹ مار کرنے والے 1292 افراد کو عدالت نے سزائیں سنائیں جو مجموعی طور پر 1800 سال کی قید کی سزاؤں پر مشتمل تھیں۔
عدالت نے ان فسادیوں کو اوسطاً 16.8 ماہ کی سزائیں سنائیں جو کہ عام طور پر اس قسم کے جرائم کے لیے دی جانے والی سزاؤں سے چار گنا زیادہ تھیں۔
عدالتیں رات بھر لگیں، ملک بھر سے استغاثہ کے وکیل لندن پہنچے تاکہ وہ ان افراد کو سزائیں دلوانے میں عدالت ک معاونت کر سکیں جو فسادات اور لوٹ مار میں ملوث تھے۔
یہاں تک کہ برطانوی کراؤن پروسیکیوٹر سروس کی سربراہ بھی سات سال بعد عدالت میں پیش ہوئیں اور ملزمان کو سزائیں دلوانے میں مدد کی۔
دوسری جانب پاکستان میں گذشتہ دنوں ایک مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے بعد سے لاہور سمیت ملک کے کئی شہروں میں تین روز تک پرتشدد احتجاج کیا۔
اس احتجاجی دھرنے کے دوران ملک کے مختلف مقامات پر توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے خود کہا کہ جماعت کے کارکنان کی پرتشدد کارروائیوں میں چار پولیس اہلکار کی جانیں گئیں جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے، تھانے پر حملہ کیا گیا اور اہلکاروں کو اغوا کیا گیا۔
وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کی سفارش پر تحریک لبیک پاکستان پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی عائد کر دی۔
تاہم دو روز بعد ہی حکومت نے اسی سیاسی جماعت کے ساتھ معاہدہ کیا جس کے تحت حکومت نے قومی اسمبلی کی جانب سے فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر بحث کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔
لیکن اسی روز وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ مذہبی جماعت تحریک لبیک پر لگی پابندی مرحلہ وار طریقے سے ختم کر دی جائے گی۔
یہ بات وزیر داخلہ شیخ صاحب نے ایک اجلاس میں بھی کی کہ ’یہ پابندی مرحلہ وار طریقے سے ختم کی جائے گی۔ یہ بیک جنبش قلم نہیں ہوسکتا اس میں تھوڑا سا وقت لگے گا۔‘
حکومت ایک جماعت پر پابندی عائد کرتی ہے اور ابھی اس کی سیاہی بھی نہیں سوکھتی کہ یہ بات کی جا رہی ہوتی ہے کہ پابندی ختم کرنے میں وقت لگے گا لیکن ختم کر دی جائے گی۔
لیکن ایسی باتیں دل پر نہیں لینی۔ یہ تو شاید ہمارا کلچر ہی بن گیا ہے۔ بات منوانی ہو تو دھرنا دو اور ہنگامے کرو۔ آپ کو تو یاد ہو گا کہ لاہور میں کیسے وکلا نے مبینہ طور پر ایک ہسپتال پر حملہ کیا کیونکہ ڈاکٹروں کی تنظیم کے ساتھ کوئی جھگڑا تھا۔
شاید ان کو معلوم نہیں تھا کہ ہسپتالوں پر حملہ تو جنگوں میں بھی جائز نہیں یہ تو پھر آپس کی لڑائی تھی۔ اسلام آباد میں وکیلوں کی جانب سے خود قبضہ شدہ زمین کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد جج کے دفتر کو محاصرے میں لے لینا تو ابھی کی بات ہے۔
آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر کرک میں ہندو سمادھی کو ایک مولوی کے اکسانے پر لوگوں نے جلا دیا۔
جب سپریم کورٹ نے کہا کہ اس کی دوبارہ تعمیر کی رقم اس مولوی اور اس کے ’گینگ‘ سے لی جائے تو خاموشی سے جرگہ ہوا جس میں ہندو برادری نے حملہ آوروں کو ’معاف‘ کر دیا۔
بیچارے اساتذہ کو علم ہی نہیں تھا اپنے مطالبات منوانے کے لیے کیا حربے استعمال کرنے چاہییں۔ وہ تو گذشتہ دسمبر بنی گالہ میں وزیر اعظم عمران خان کی رہائش گاہ کے قریب اپنے مطالبات پرامن طریقے سے منوانے کے لیے دھرنا دیے بیٹھے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پھر کیا تھا، پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا اور لاٹھیاں برسائیں، جو جو استاد ہاتھ میں آتا گیا اس کو تھانوں میں منتقل کر دیا گیا اور باقی جو رہ گئے ان کو رہائش گاہ سے دور دھکیل دیا گیا۔
ہنگاموں اور دھرنوں کی خبروں میں ہمیشہ یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا۔ اتنی گاڑیاں، موٹر سائیکل یا رکشے جلا دیے گئے یا شیشے توڑے گئے۔
حکومت اور عوام کے لیے یہ گاڑیاں، موٹر سائیکلیں اور رکشے محض ایک تعداد رہی ہے اور رہے گی۔ کبھی ان لوگوں کو بھی سنا گیا جن کی ذاتی املاک کو نقصان پہنچا ہے؟ کسی نے ادھار لے کر رکشہ یا ٹیکسی لی ہو گی تو کسی نے اپنی جمع پونجی سے گاڑی خریدی ہو گی۔
کیا لندن کے فسادات میں ملوث تمام لوگ پکڑے گئے اور سب کو سزا ہوئی؟ نہیں۔ لیکن اس وقت حکام کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایک بات ان فسادات میں سیکھی کہ جتنی جلدی آپ لوگوں کو گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لے آتے ہیں اور ان کو سزائیں سناتے ہیں یہ امر دوسروں کو اس قسم کی تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے سے روکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسی صورت حال میں ملک کی عدلیہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ لوگ دیکھتے ہیں کہ ایسی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے نتائج ہیں جو ان کو بھگتنا ہوں گے۔
اور شاید اسی لیے پاکستان میں توڑ پھوڑ اور فسادات کرنے کا کلچر اسی لیے قدم جماتا جا رہا ہے کہ فسادیوں کو معلوم ہے کہ ان کا بال بیکا بھی نہ ہو گا۔