مراد امیر اور ان کے بڑے بھائی 21 اپریل کو ہوشاب میں خوشی خوشی گھر سے نکلے اور والدہ کو کہا کہ وہ جنگل سے شہد لانے جا رہے ہیں۔ جب وہ شہد نکالنے کے بعد واپس آرہے تھے تو مراد نے اپنی والدہ کو فون کرکے کہا کہ انہیں شہد مل گیا ہے اور وہ واپس آرہے ہیں۔
والدہ کے مطابق: ’جب دونوں بھائی واپس آرہے تھے تو مراد نے اپنے بھائی کو کہا وہ کوئی چیز بھول گئے ہیں اور وہ لینے جارہے ہیں لیکن کافی دیر بعد بھی جب مراد واپس نہیں آیا تو ان کے بھائی نے انہیں جاکر تلاش کیا لیکن مراد نہیں ملا۔‘
جس کے بعد مراد کے بڑے بھائی گھر آگئے اور والدہ کو بتایا کہ مراد کھو گیا ہے، لیکن کچھ ہی دیر کے بعد مراد روتا ہوا گھر واپس آگیا۔
مراد نے گھر والوں کو بتایا کہ ’جب وہ واپس آرہے تھے تو راستے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کی چوکی کے قریب ایک اہلکار نے انہیں روک کر ان کے ہاتھ پیچھے باندھ دیے۔ انہوں نے بھائی کو آواز دینے کی کوشش کی لیکن دور ہونے کی وجہ بھائی تک آواز نہیں پہنچی، جس کے بعد ایف سی اہلکار نے قریب لے جاکر انہیں مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا۔‘
متاثرہ بچے مراد کی والدہ خان بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 'میرے بیٹے کے چہرے پر زخم کے نشانات تھے اور اس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ بچے کی حالت دیکھنے کے بعد ہم نے لیویز کو اطلاع کرکے کارروائی کا مطالبہ کیا۔'
خان بی بی نے بتایا کہ 'ہم نے معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ مراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی شلوار بھی پھٹی ہوئی تھی۔ یہ اس علاقے میں چوتھا یا پانچواں واقعہ ہے۔'
اس واقعے کے بعد لیویز اور دیگر حکام کی طرف سے کارروائی نہ کرنے کے خلاف علاقہ مکینوں نے سی پیک شاہراہ پر دھرنا دے کر ٹریفک معطل کرکے احتجاج کیا تھا۔
خان بی بی نے بتایا کہ 'یہ واقعہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اب ہماری بچیاں اور ہم خود بھی خوف کا شکار ہیں کہ نجانے کب کس کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آجائے۔ اگر آج ہمارے ساتھ یہ ہوا ہے تو کل کسی اور ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'اس علاقے میں ہمارے بچے اکثر شہد نکالنے کے لیے جاتے ہیں۔ ہمیں انصاف چاہیے، اس لیے ہم یہاں تربت میں احتجاج کررہے ہیں۔'
واقعے کا مقدمہ
ہوشاب لیویز تھانے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فرنٹیئر کور کے مذکورہ اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور انہیں جمعے کو لیویز نے عدالت میں پیش کرکے تین روزہ ریمانڈ بھی حاصل کرلیا ہے۔
فرنٹیئر کور کے اہلکار ریحان کے خلاف ہوشاب لیویز تھانے میں مراد کے سوتیلے بھائی محمد نعیم کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایف آئی آر کے مطابق محمد نعیم نے بتایا کہ ان کے دونوں سوتیلے بھائی رحیم اور مراد گھر سے قریبی جنگل شہد لانے کے لیے گئے تھے جبکہ اس وقت وہ خود گھر میں موجود تھے۔
'چند گھنٹے گزرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ دونوں بھائی گھبرائے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور مراد درد کی شدت کے باعث رو رہا تھا۔'
ایف آئی آر کے مطابق: 'نعیم کے پوچھنے پر رحیم نے بتایا کہ وہ میسکی کورجو سے شہد لانےکے لیے گئے، جب انہوں نے شہد نکال لیا اور موٹر سائیکل کے قریب پہنچے تو یاد آیا کہ ہم نے برتن وہیں چھوڑ دیا ہے۔ جس پر رحیم نے مراد کو بھیجا کہ وہ برتن اٹھا کر لائے، لیکن مراد نے آنے میں دیر کردی۔ تھوڑی دیر کسی کے رونے کی آواز آئی، میں نے جلدی جلدی وہاں جاکر دیکھا کہ ایک ایف سی اہلکار میرے بھائی کے ساتھ بدفعلی کررہا ہے۔'
ایف آئی آر کے مطابق: 'رحیم نے یہ دیکھ کر شور مچانا شروع کیا اور ایف سی اہلکار کو پتھر مارے جس پر اس نے میرے بھائی کو چھوڑ دیا۔'
ادھر ڈپٹی کمشنر کیچ حسین بلوچ نے بھی رابطہ کرنے پر فرنٹیئر کور کے اہلکار کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب گذشتہ روز ٹیچنگ ہسپتال تربت میں متاثرہ بچے کا میڈیکل ٹیسٹ کیا گیا اور چیف میڈیکل آفیسر کے دستخط سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ 'بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کے شواہد نہیں ملے۔'
تربت شہر میں احتجاج
اس واقعے کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر تربت شہر میں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی اور مرکزی بازار میں جلسہ کیا گیا، جس میں خواتین کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مظاہرے میں شریک ایک سماجی کارکن اور طالب علم سہیلہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ 'اس معاملے میں ملزم کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے اور بچےکے لواحقین کو کیس واپس لینے اور مراعات کی پیش کش کی گئی ہے۔'
انہوں نے مزید بتایا: 'متاثرہ بچے کے لواحقین نے ہمیں بتایا کہ جب پہلے ہم نے ٹیچنگ ہسپتال تربت میں بچے کا میڈیکل کروایا گیا تو انہیں بتایا گیا کہ رپورٹ مثبت ہے، تاہم بعد میں اسے تبدیل کرکے منفی کردیا گیا۔'
سہیلہ کے مطابق: 'ہم سمجھتے ہیں کہ ہسپتال کے عملے پر دباؤ ڈال کر رپورٹ کو تبدیل کیا گیا۔ ہمارا احتجاج اس معاملے کو دبانے کے خلاف بھی ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ واقعہ ہمارے بچوں کے لیے انتہائی تشویشناک ہے۔ اس کے ہمارے معاشرے پر بہت منفی مرتب ہوں گے۔ اب بچے ہم سے کہتے ہیں کہ وہ گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے۔'
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'اگر آج کے احتجاج کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تو ہم مزید سخت لائحہ عمل طے کریں گے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'حالیہ واقعہ بھی شاید دب جاتا کیوں کہ مکران میں میڈیا کا بلیک آؤٹ ہے اور خبریں سامنے نہیں آتیں، لیکن یہ واقعہ سوشل میڈیا پر آنے کے باعث اجاگر ہوا۔'
واضح رہے کہ ہوشاب میں بچے کے ساتھ فرنٹیئر کور کےاہلکار کی زیادتی کی خبر سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنی رہی اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بھی اس کے حوالے سے خبریں چلتی رہیں۔
دوسری جانب ممتاز ماہر قانون اور پاکستان بار کونسل کے ممبر منیر احمد خان کاکڑ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد فوری مقدمہ درج نہ کرنا اور گرفتاری میں تاخیر کے حربے ملزم کو فائدہ دینے کی کوشش ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'بلوچستان کے اکثر علاقوں میں ایسے واقعات سامنے آتے ہیں، جن میں تاخیری حربوں کے ذریعے ملزمان کو شک کا فائدہ مل جاتا ہے۔'
بچے کی میڈیکل رپورٹ منفی آنے کے حوالے سے منیر کاکڑ نے بتایا کہ 'زیادتی کے بارے میں تصدیق کے لیے ملزم اور متاثرہ بچے کا میڈیکل اور ڈی این اے کروا کر حقائق سامنے لائے جاسکتے ہیں۔'