بلوچستان کے دور دراز صحرائی علاقے میں رواں دواں اونٹ جس کا نام ’روشن‘ ہے، اپنی پیٹھ پر ایک قیمتی سامان لادے خراماں خراماں چل رہا ہے۔ یہ سامان دراصل کتابیں ہیں، جو ان بچوں کے لیے لائی جا رہی ہیں جو کرونا (کورونا) وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے سکول نہیں جا سکتے۔
یہ بچے ایسے دور دراز کے علاقوں کے مکین ہیں، جہاں کی گلیاں گاڑیوں کے لیے بہت تنگ ہیں۔ بچے روشن کے استقبال کے لیے اپنے بہترین کپڑے پہن کر تیار ہوتے ہیں اور پھر سب اونٹ کے گرد جمع ہو کر چلاتے ہیں: ’اونٹ یہاں پہنچ گیا۔‘
مارچ 2020 میں کرونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پاکستانی سکولوں کو پہلی بار بند کیا گیا تھا، جس کے بعد یہ بہت کم وقت کے لیے ہی کھل سکے ہیں۔ تقریباً پانچ کروڑ بچے جو سکول اور یونیورسٹیوں کے طالب علم ہیں، اب گھر سے ہی اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن بلوچستان کے دیہی علاقوں میں یہ اور بھی مشکل ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔
رحیمہ جلال ایک سکول کی پرنسپل ہیں، جنہوں نے اپنی بہن جو کہ ایک وفاقی وزیر ہیں، کہ ساتھ مل کر اس کیمل لائبریری پروجیکٹ کی بنیاد رکھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ منصوبہ گذشتہ سال اگست میں شروع کیا گیا تھا کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ دور دراز اپنے آبائی علاقے سے تعلق رکھنے والے بچے سکول بند ہونے کے باوجود اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
کیمل لائبریری پروجیکٹ، فی میل ایجوکیشن ٹرسٹ اور الف لیلیٰ بک بس سوسائٹی کی معاونت سے چلایا جا رہا ہے۔ یہ دو غیر سرکاری تنظیمیں 36 سال سے پاکستان میں بچوں کے لیے لائبریری کے منصوبے چلا رہی ہیں۔
روشن نامی یہ اونٹ ضلع کیچ کے چار مختلف اضلاع میں کتابیں پہنچانے کا کام کرتا ہے۔ وہ ہر گاؤں میں ایک ہفتے میں تین بار آتا ہے اور وہاں دو گھنٹے قیام کرتا ہے۔ بچے کتابیں ادھار لیتے ہیں اور روشن کے اگلی بار آنے پر واپس کر دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نو سالہ عنبرین عمران نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں بتایا: ’مجھے تصاویر والی کتابیں پسند ہیں، کیونکہ جب میں تصاویر اور خاکے دیکھتی ہیں تو میں ان کی کہانی کو بہتر سے سمجھ پاتی ہوں۔‘
رحیمہ کو یقین ہے کہ وہ اپنے اس منصوبے کو مزید دیہات تک پھیلا سکتی ہیں لیکن انہیں اس کے لیے فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ روشن کے ہر ماہ کے اخراجات کے لیے 118 ڈالرز (18 ہزار روپے سے زائد) درکار ہوتے ہیں۔
روشن کے مالک مراد علی کا کہنا ہے کہ جب ان سے پہلی بار اس منصوبے کے لیے رابطہ کیا گیا تو وہ حیران رہ گئے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اونٹ بہتر سفری سہولت ہے۔ وہ اس سفر کا لطف اٹھاتے ہیں اور بچوں کو خوش دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہوتی ہے۔ وہ اب بھی اتنا ہی کماتے ہیں جتنا وہ جلانے کے لیے لکڑی بیچ کر کماتے تھے۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جو ملک کے تقریباً نصف رقبے کا حامل ہے لیکن یہاں آبادی بہت پھیلی ہوئی ہے اور یہ ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔