وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر چینی بحران کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی کے لیے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی۔ اس ٹیم کی سربراہی پہلے ڈائریکٹر ایف آئی ڈاکٹر محمد رضوان کے پاس تھی لیکن اس کی نگرانی تب بھی ابوبکر خدا بخش ایڈیشنل ڈیریکٹر جنرل ایف آئی ہی کر رہے تھے۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اب اس جے آئی ٹی کی سربراہی باقاعدہ ابوبکر خدابخش کو سونپ دی گئی ہے۔
ویسے تو یہ دونوں افسران ہی ڈیپوٹیشن پر محکمہ پولیس سے ایف آئی اے میں تعینات ہوئے ہیں۔ لیکن جب جے آئی ٹی کی جانب سے شوگر ملز مالکان سے متعلق چھان بین شروع ہوئی اور جہانگیر ترین کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمات درج کیے تو میڈیا پر پیر کے روز سے خبریں چلیں کہ شوگر جے آئی ٹی کے سربراہ کو تبدیل کردیاگیا۔ جس سے تاثر ابھرا کہ شاید پی ٹی آئی ہم خیال گروپ کے دباؤ میں آکر جے آئی ٹی سربراہ کو تبدیل کیاگیاہے۔
ابوبکر خدابخش کون ہیں؟
ابوبکر خدا بخش بطور پی ایس پی افیسرمحکمہ پولیس میں بھرتی ہوئے، ان کی زیادہ سروس پنجاب میں رہی۔ وہ محکمہ میں کافی بااصول اور فعال افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
اس کا اندازہ یہاں سے لگایاجاسکتاہے کہ 2018میں جب پولیس مقابلہ میں ایک لڑکی ہلاک ہوئی تو انہیں جے آئی ٹی کا سربراہ بنایاگیا۔ انہوں نے جائزہ لے کر پولیس کو واقعہ میں ذمہ دار ٹھہرا دیا، پولیس حکام کے دباؤ پر انہیں بطور ایڈیشنل آئی جی انویسٹیگیشن پولیس کے عہدے پر تبدیل کیاگیا تو دو دن بعد احکامات واپس ہوگئے۔
قصور میں جب بچوں سے زیادتی کا کیس سامنے آیا اس معاملہ کی تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ بھی انہیں ہی کمیٹی کا سربراہ بنایاگیا۔ اس کے بعد قصور میں ہی جب زینب نامی بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیاگیا اور معاملہ ملکی سطح پر اٹھاتب بھی جے آئی ٹی کاسربراہ ابوبکر خدا بخش کو ہی بنایاگیاتھا۔ تاہم زینب کے والد نے انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیاتھا۔
فیصل آباد میں جب احمدیوں کی مبینہ فائرنگ سے 13شہریوں کے قتل کا واقعہ پیش آیا تب اس کیس کی جے آئی ٹی کا سربراہ بھی انہیں بنایاگیاتھا۔ ڈی پی او خوشاب رہے ایک انکوائری میں وزیر اعلی شہباز شریف نے انہیں عہدے سے ہٹایاتھا۔ آر پی او شیخوپورہ بھی رہے۔
ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اےتقرری کے بعد جب کچھ عرصہ پہلے پیٹرولیم بحران کا معاملہ ہوا تو اس کی تحقیق کے لیے بننے والی کمیٹی کی سربراہی کے لیے بھی ابوبکر خدا بخش کو نامزد کیاگیاتھا۔
سابق سربراہ ڈاکٹر محمد رضوان
شوگر جے آئی ٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد رضوان کو بھی پولیس میں بطور پی ایس پی افیسر تقرری ملی۔
ان کا تعلق سرگودھا سے ہے۔ وہ ایس ایس پی آپریشن لاہور، ڈی پی او لیہ، ڈی پی او مظفر گرھ،ڈی پی او راجن پور رہے۔ جب سکندر نامی شخص اسلحہ لے کر روڑ پر نکلا اس وقت بھی ڈاکٹر محمد رضوان ایس ایس پی اسلام آباد تھے۔ اس کے بعد ان کا تبادلہ بطور ڈائریکٹر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) میں کر دیاگیا اور انہیں شوگر جے آئی ٹی کا سربراہ مقررکیاگیاتھا۔
جب ڈاکٹر رضوان سے شوگر جے آئی ٹی کے سربراہ کی تبدیلی کا پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اس معاملہ پر بات نہیں کرسکتے۔
شوگر جے آئی ٹی کے سربراہ کی تبدیلی سے کیا فرق پڑے گا؟
ایف آئی اے کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر سجاد باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ابوبکر خدا بخش پہلے ہی بطور ایڈیشنل ڈی جی جے آئی ٹی کے نگران تھے جبکہ معاملات ڈاکٹر رضوان دیکھ رہے تھے اس تبدیلی سے شوگر جے آئی ٹی کی کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ شوگر جے آئی ٹی سربراہ کی تبدیلی ہم خیال گروپ کی ملاقات سے پہلے خبریں چلوا کر انہیں جھانسا دیاگیاہے کیونکہ جہانگیر ترین نے ڈاکٹر رضوان پر اعتراض کیاتھا۔ سجاد باجوہ کے مطابق یہ ایسی خبریں نہیں جن سے شوگر انکوائری میں بڑی تبدیلی کی توقع کی جائے۔ یہ جے آئی ٹی مشیر وزیر اعظم شہزاد اکبر کی رائے پر ہی کرے گی۔
پاکستان میں چینی بحران سے متعلق وزیر اعظم نے واجد ضیا کی سربراہی میں فروری 2020میں کمیٹی بنائی، جس نے 11 گروپوں کے آڈٹ کی تجویز دی جن میں پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین، چودھری برادران، خسرو بختیار، شریف خاندان، اومنی گروپ جس میں آصف علی زرداری کے بھی شیئرز ہیں، شامل تھیں۔
کمیٹی نے ان گروپوں کا 2017سے 2000ء تک تین سیزن کاآڈٹ تجویز کیا۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کابینہ میں پیش ہوئی تو اس رپورٹ پر انکوائری کے لے واجد ضیا کی ہی سربراہی میں شوگر کمیشن تشکیل دیاگیا جس میں دیگر محکموں کے افسران بھی شامل کیے گئے۔
اسی کمیشن کی سفارش پر شوگز ملز گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے شوگر جے آئی ٹی تشکیل دی۔ اس جے آئی ٹی کی جانب سے شوگر ملز مالکان سے متعلق کارروائی کے لیے شواہد جمع اور گواہان کے بیانات بھی ریکارڈ کیے ہیں۔