افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے افغان حکام سے افغانستان میں قید داعش اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے قیدیوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔
25 اپریل کو کابل کے دورے پر گئے پاکستانی حکام نے افغانستان کے نیشنل سکیورٹی کونسل کے مشیر حمد اللہ محب کے ساتھ اجلاس میں قیدیوں کی حوالگی پر تبادلہ خیال کیا۔ وفد میں شامل پاکستان کے سکیورٹی حکام نے افغانستان سے داعش اور ٹی ٹی پی کے قیدیوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
افغانستان کے قومی سلامتی کے ڈائریکٹر احمد ضیا سراج نے منگل کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں تصدیق کی کہ ’ایک یا دو قیدیوں‘ کے تبادلے کے بارے میں دو روز قبل اسلام آباد کے ایک وفد کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے۔
افغانستان کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے سربراہ احمد ضیا سراج نے صحافیوں کو بتایا کہ وفد میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے نمائندے بھی شریک تھے جن سے قیدیوں کے معاملے پر مذاکرات ہوئے ہیں۔ ’کابل نیوز‘ کے مطابق افغان حکام نے اس حوالے سے مثبت پیش رفت کا اشارہ دیا ہے۔
صحافی ایس خان کے مطابق ان قیدیوں میں ایک بڑا نام داعش کے خراسان خطے کہلوانے والے علاقے کے کمانڈر اسلم فاروقی (عبد اللہ اورکزئی) کا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ انہیں پچھلے سال پانچ اپریل کو افغان سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا تھا۔
این ڈی ایس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں پکڑے گئے رہنما اسلم فاروقی کو اس وقت پاکستان کے حوالے کیا جائے گا جب پاکستان میں قید کئی طالبان رہنماؤں کو افغان حکومت کے حوالے کیا جائے گا۔
ان کی گرفتاری کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں اس وقت کے افغان سفیر لطف اللہ مشعل کو طلب کیا اور اسلم فاروقی کی پاکستان حوالگی کا مطالبہ کیا۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کی سربراہی میں 25 اپریل کو ایک اعلیٰ سطحی سیاسی اور عسکری وفد نے کابل کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے دورہ افغانستان کے ملتوی ہونے کے بعد یہ دورہ سامنے آیا ہے جسے خاص اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستانی وفد نے افغان حکام کے ساتھ چار اہم نکات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
آٹھ اپریل کو اسد قیصر کے دورہ کابل سکیورٹی خدشات کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا جس پر افغانستان کے قومی اسمبلی کے سپیکر میر رحمان رحمانی نے سکیورٹی حکام کو اسمبلی طلب کر کے اس پر کمیٹی بنائی۔ افغان سکیورٹی حکام کے ساتھ اس بابت تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان اور پاکستان کے مابین افغانستان، پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کا معاہدہ فروری میں ختم ہوچکا ہے۔ یہ معاہدہ 10 سال قبل 2010 میں کیا گیا تھا، جس میں اب تین ماہ کے لیے عارضی طور پر توسیع کی گئی ہے۔
ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ میں توسیع افغان حکومت کی درخواست پر دی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ پانچ ماہ سے اس پر گفتگو ہو رہی ہے تاہم اب تک معاہدے کو ازسرنو تشکیل نہیں دیا گیا ہے۔
دورے کا تیسرا سب سے اہم مقصد دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی بحالی پر تبادلہ خیال تھا۔ نائب افغان صدر امراللہ صالح کی جانب سے گذشتہ دنوں پاکستان پر طالبان کے ساتھ مالی مدد اور عسکری حمایت کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
نیشنل سکیورٹی کونسل کے مشیر حمداللہ محب اور پاکستان کے لیے افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی محمد عمر داودزائی کے ساتھ، سکیورٹی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے مابین سکیورٹی مسائل میں تعاون پر اتفاق رائے طے پایا ہے۔
خصوصی ایلچی برائے پاکستان محمد عمر داود زئی نے دورے سے دو دن قبل افغان نیشنل ٹیلی ویژن سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستانی وفد کے ساتھ اس دورے میں ہم ان مسائل پر بات چیت کریں گے جس پر پہلے کبھی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔‘
محمد عمر داود زئی نے اس دورے کو اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی پالیسی تبدیلی کی طرف جا رہی ہے۔ انہوں نے اقرار کیا کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز افغان فورسز کے ساتھ کچھ نا کچھ تعاون کر رہی ہیں تاہم اس میں مزید تعاون کی ضرورت ہے۔
پاکستانی وفد نے کابل میں اپنے دورے کے دوران ڈپٹی وزیر خارجہ میرویس نیب، پاکستان کے لیے افغان صدر اشرف غنی کے خصوصی ایلچی محمد عمر داودزئی، افغان نیشنل سکیورٹی کونسل کے ایڈوائزر حمداللہ محب، سابق افغان کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اور ڈاکٹر عبد الطیف پدرام سے ملاقاتیں کیں۔