افغانستان کے آخری یہودی بھی ملک چھوڑنے کو تیار

زبولون سیمینٹوف کے مطابق: ’طالبان آج بھی 21 سال پہلے کی طرح ہی ہیں۔ میں نے افغانستان پر سے اعتماد کھو دیا ہے۔۔۔ یہاں اب زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔‘

روسی جارحیت، بدترین خانہ جنگی، طالبان کے ’وحشیانہ‘ اقتدار اور امریکی یلغار کے باوجود زبولون سیمینٹوف کئی دہائیوں سے افغانستان میں مقیم ہیں۔

لیکن افغانستان سے انخلا کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ عدم استحکام کے شکار اس ملک کے آخری یہودی شہری ہیں، لیکن اب جب کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی کا امکان پیدا ہوگیا ہے، انہوں نے افغانستان کو الوداع کہنے کی تیاری کرلی ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے وسط میں ایک قدیم عمارت اور ملک میں یہودیوں کی واحد عبادت گاہ میں رہائش پذیر سیمینٹوف نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’میں اب یہاں کیوں رہوں؟ وہ مجھے کافر کہتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’میں یہاں آخری اور اکلوتا یہودی بچا ہوں۔ یہاں میرے لیے صورت حال اور بھی خراب ہوسکتی ہے اور اگر طالبان واپس (اقتدار میں) آ گئے تو میں نے اسرائیل منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ واشنگٹن  کی جانب سے اس سال کے آخر تک تمام امریکی افواج کو واپس بلانے کے معاہدے اور طالبان اور افغان حکومت کے مابین جاری امن مذاکرات کے بعد کیا ہے، جس کے نتیجے میں طالبان کے اقتدار میں شراکت دار بننے کی توقع ہے۔

1950 کی دہائی میں مغربی شہر ہرات میں پیدا ہونے والے سیمینٹوف 1980 کی دہائی کے اوائل میں سوویت حملے کے دوران دارالحکومت کابل کے اس وقت کے نسبتاً مستحکم علاقے میں منتقل ہوگئے تھے۔

یہودی ڈھائی ہزار سالوں سے افغانستان میں مقیم تھے اور ہرات میں تو خوشحال یہودیوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ ہرات میں اب بھی چار یہودی عبادت گاہیں موجود ہیں جو اس برادری کی قدیم موجودگی کا ثبوت ہیں۔

لیکن انیسویں صدی سے کے بعد سے یہ یہودی مستقل طور پر ملک چھوڑ گئے اور ان میں سے بیشتر اب اسرائیل میں مقیم ہیں۔

ان دہائیوں کے دوران سیمینٹوف کے تمام رشتے دار بھی افغانستان سے چلے گئے، جن میں ان کی بیوی اور دو بیٹیاں بھی شامل ہیں۔

انہیں اب یقین ہو گیا ہے کہ وہ ملک کے آخری افغان یہودی ہیں۔

روایتی افغان لمبی قمیص اور شلوار میں ملبوس سیمینٹوف سوویت جنگ سے قبل کے برسوں کو افغانستان کے لیے بہترین وقت کے طور پر یاد کرتے ہیں۔

اپنے آپ کو ایک قابل فخر افغان کہنے والے سیمینٹوف نے کہا: ’اس وقت ہر مذہب اور ہر مسلک کے پیروکاروں کو پوری مذہبی آزادی حاصل تھی۔‘

لیکن اس کے بعد کے واقعات نے صورت حال کو تلخ بنا دیا۔ خصوصاً 1996 سے 2001 تک طالبان کی حکمرانی کے دوران جب اسلام پسندوں نے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا: ’طالبان کی اس ظالمانہ حکومت نے مجھے چار بار جیل میں ڈالا۔ ایک واقعے میں طالبان نے ہمارے مقدس ہیکل میں توڑ پھوڑ کی، عبرانی متن میں کتابیں پھاڑ دی گئیں، مینوراہس کو توڑ دیا اور قدیم تورات کو چھین لیا گیا۔‘

انہوں نے کہا: ’طالبان نے کہا کہ یہ امارت اسلامیہ ہے اور یہودیوں کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘

اس سب کے باوجود سیمینٹوف نے یہاں سے جانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے یہودی عبادت گاہ کے فرش کو چومتے ہوئے کہا: ’میں نے مزاحمت کی ہے۔ میں نے یہاں موسیٰ کے مذہب کا دفاع کیا ہے۔‘

وہ یہودی نئے سال اور تمام یہودی تہوار باقاعدگی سے اس عبادت گاہ میں منا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک یہ عبادت گاہ 10 ، 20 بار فروخت ہوچکی ہوتی۔‘

سیمینٹوف اپنے کمرے میں سرخ قالین پر رکھے گیس کے ایک چھوٹے سے چولھے پر کھانا تیار کر ہے تھے، جہاں ایک کونے میں پڑے ٹیبل پر ان کی بیٹیوں کی کچھ کتابیں اور پرانی تصاویر ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب 2001 میں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا تو ان کا خیال تھا کہ افغانستان ترقی کرے گا۔

انہوں نے کہا: ’مجھے لگتا تھا کہ یورپی اور امریکی اس ملک کو ٹھیک کردیں گے۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘

دوسری جانب سیمینٹوف کے پڑوسیوں کو ان کے چلے جانے کا افسوس ہوگا۔

شاکر عزیزی، جو یہودی عبادت گاہ کے سامنے کریانے کی دکان کے مالک ہیں، نے کہا: ’وہ اچھے انسان ہیں۔ وہ 20 سال سے میرے گاہک ہیں۔ اگر وہ چلے گئے تو ہم انہیں اور ان کی موجودگی کو یاد کریں گے۔‘

لیکن سیمیٹوف کو خوف ہے کہ اگر وہ یہاں رہے تو آگے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’طالبان آج بھی 21 سال پہلے کی طرح ہی ہیں۔ میں نے افغانستان پر سے اعتماد کھو دیا ہے۔۔۔ یہاں اب زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا