مردان اور ایبٹ آباد کی سڑکوں پر رواں دواں گلابی رنگ کی بسیں اخباروں، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر تو مقبولیت حاصل کرچکی ہیں لیکن مقامی خواتین ابھی اس سے پوری طرح آشنا نہیں ہیں۔
مردان میں پنک بس چلانے والے ایک ڈرائیور ظاہر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ روزانہ صبح سات بجے سے ڈیوٹی کا آغاز کرتے ہیں اور پورے مردان کا چکر کاٹتے ہوئے عبدالولی خان یونیورسٹی کے سامنے روک دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’خواتین طلبہ میں سے جن کو اس بس کے بارے میں علم ہے، وہ خوشی خوشی بس میں آ کر بیٹھ جاتی ہیں، لیکن عام گھریلو خواتین میں سے اکثر کو اس بارے میں معلومات نہیں ہیں اور کچھ جھجک اور شرم کے مارے اس بس میں نہیں چڑھتیں۔ ان کو لگتا ہے کہ اس بس کا کرایہ زیادہ ہوگا۔ لیکن ہم صرف اتنا ہی کرایہ لیتے ہیں جو وہ لوکل ویگنوں اور رکشوں میں دیتی ہیں۔‘
یہ ایک خوبصورت اور ایئر کنڈیشنڈ بس ہے، جس میں محدود سیٹیں ہیں لیکن بیٹھنے کی جگہ نہ ہونے کے باوجود خواتین کھڑی رہ کر بھی سفر کرسکتی ہیں۔ یہ وہ بات ہے جو عوامی ویگنوں میں ممکن نہ تھی۔ خواتین الگ سے کسی سیٹ پر بیٹھ کر بھی محفوظ نہیں تھیں، خصوصاً عوامی بسوں اور ویگنوں میں چڑھتے، اترتے اور بیٹھتے وقت کسی نہ کسی مرحلے پر انہیں ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خواتین جہاں بھی جاتی ہیں اکثر ان کے گھر کے مرد حضرات یا بڑی بوڑھیاں ساتھ ہوتی ہیں، بصورت دیگر ان کو اکیلے جانے ہی نہیں دیا جاتا۔ شاید اسی وجہ سے خواتین میں خود اعتمادی کی کمی بھی ہوتی ہے۔
پنک بس کی ایک ہوسٹس اقصیٰ خان نے بتایا کہ خواتین کو گلابی بس کی شکل میں بہت بڑا ریلیف مل گیا ہے۔ ’ابھی بہت ساری خواتین کو اس بارے میں معلوم ہی نہیں ہے۔ جب سب کو اس سروس کے بارے میں علم ہو جائے گا تب اس بس میں پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہیں ملے گی۔‘
گلابی رنگ صرف عورتوں کے لیے مخصوص کیوں؟
پشاور میں اس بس کی نگرانی کے لیے قائم دفتر میں جینڈر ایشوز کے مسائل طے کرنے والی سائرہ تاجدار کا کہنا ہے کہ اکثر حقوقِ نسواں کے حامی تنقید کا اظہار کرتے ہیں کہ اس کا رنگ گلابی رکھ کر اس کو پنک بس کا نام کیوں دیا گیا ہے؟
سائرہ کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ کسی بھی رنگ کو کسی جنس کے ساتھ جوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس بس کا نام ’پنک بس‘ ہے ہی نہیں، اس کا نام ’سکورہ‘ ہے جو کہ جاپان کے قومی پھول کا نام ہے، جس کا رنگ گلابی ہے۔ چونکہ یہ بسیں جاپان کی حکومت نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو تحفے میں دی ہیں، لہذا رنگ اور دیگر چیزیں بھی ان کی مرضی کے ہیں۔
سائرہ کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار اتنی خراب ہو چکی ہیں کہ خواتین اور مردوں کو ہر جگہ علیحدہ کرنا پڑ رہا ہے۔‘