بھارت میں کرونا (کورونا) کے فعال کیسوں کی تعداد ایک کروڑ 80 لاکھ سے اوپر جا چکی ہے جبکہ اموات تین لاکھ کے ہندسے کے آس پاس پہنچ چکی ہیں۔ یہ قہر ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
پانچ ریاستیں مہاراشٹر، کرناٹک، کیرالہ، اتر پردیش اور دہلی میں پچھلے تین دن سے کرونا کیسوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
کس طرح لوگ اپنے پیاروں کو اچانک کھو رہے پتہ ہی نہیں چل رہا۔ ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں اور لوگ سڑکوں پر تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔
ہیلتھ ایمرجنسی کے اس وقت میں اتر پردیش میں، جو کرونا کیسوں کے اعتبار سے پانچ ٹاپ ریاستوں میں شامل ہے، تانا شاہی اپنے عروج پر ہے۔
اس سے پہلے مختلف اقسام کے فوبیوں کے بارے میں تو سن رکھا تھا لیکن آکسیجن سے بھی کوئی ڈرتا ہے، دیکھا پہلی بار۔ پتہ نہیں یوپی کا موجودہ ایوان اقتدار آکسیجن کی ڈیمانڈ کرنے پر سیخ پا کیوں ہو جاتا ہے۔
کرونا کی دوسری لہر نے ملک بھر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ یقین جانیں جس طرف نظریں اٹھاؤ لاشوں کے انبار دکھائی دے رہے ہیں۔
ملک کے ہسپتال آکسیجن کی کمی کا شکار ہیں۔ زیادہ تر اموات آکسیجن کی عدم دستیابی یا بروقت فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔
مکھیہ منتری اتر پردیش کو چاہیے تھا کہ سرکاری و نجی ہسپتالوں میں آکسیجن کی فراہمی یقینی بنائی جاتی۔
اس کے برعکس الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق آکسیجن کی کمی سے مرنے والوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ایک فرمان جاری ہوا کہ ریاست بھر کے ہسپتالوں میں آکسیجن وافر مقدار میں موجود ہے۔
یہ بات اگر یقین دہانی کی حد تک رہتی تو جھوٹ کی حد تک ہی سہی لیکن چلتی- مگر آکسیجن مانگنے والوں کے خلاف نیشنل سکیورٹی ایکٹ و گینگسٹر ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کا پروانہ بھی جاری ہو گیا۔
آرڈر دیا گیا کہ اگر کوئی سرکاری ہسپتال آکسیجن کی کمی کی نشاندہی کرے تو اس کے ملازمین کے خلاف ایکشن لیا جائے، پرائیویٹ ہسپتال کرے تو لائسنس کینسل کیے جائیں، اور اگر کوئی شہری اس بابت بات کرے یا جینے کے لیے ہوا مانگے تو اس کی جائیداد ضبط کر لی جائے۔
پتہ نہیں یوگی آکسیجن پر بات کرنے سے کتراتے کیوں ہیں۔ اب تو پوری دنیا پر بھارت میں آکسیجن کی کمی کا راز آشکار ہو چکا ہے اسی لیے تو مختلف ملک ایمرجنسی آکسیجن بھیج رہے ہیں۔ یوپی سرکار آکسیجن کی کمی کی حقیقت کو ماننے سے انکاری ہے۔
وہ اس پر ڈتی ہے کہ ریاست میں آکسیجن کی کوئی کمی نہیں۔ پچھلے تین دنوں سے اخبارات میں دھڑلے سے خبریں آ رہی ہیں کہ آکسیجن کی عدم فراہمی کے باعث ریاست کے مختلف ہسپتالوں میں اموات ہوئی ہیں۔
خوف ناک عمل یہ ہے کہ ریاست میں آکسیجن کی قلت سے مرنے والوں کے لواحقین اگر اس بابت بات کرتے ہیں تو ملزم قرار دیے جا رہے ہیں۔
سوموار کو ’دی وائر‘ سے منسلک صحافی عارفہ خانم شیروانی انکت نامی شخص کی جانب سے ایک ٹویٹ کرتی ہیں کہ ان کے دوست ششنانک یادیو کے نانا کو امیٹھی میں آکسیجن کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے کچھ دیر بعد ششانک کے نانا دنیا سے چلے گئے۔ صحافی شیروانی کی جانب سے ٹویٹ کیا کرنا تھا کہ آکسیجنو فوبیا ٹولے کو یہ بات ناگوار گزری اور ششانک پر ہی مقدمہ دائر کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گو کہ سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد یہ مقدمہ واپس لینا پڑا لیکن اس طرح کی ریاستی ہراسانی تشویش ناک ہے۔
یوپی پولیس کی جانب سے ایسے اور بھی مقدمات بنائے گئے ہیں۔ یہ مقدمات بنانے کا اصل مقصد لوگوں کو تنبیہ کرنا ہے کہ خبر دار کوئی حکومت کی کمزوری پر انگلی اٹھائے، عالی پناہ کو گراں گزرے گی۔ یوپی میں اس وقت لوگ دوہرے خوف میں مبتلا ہیں۔
ایک خوف تو کرونا مریضوں کو آکسیجن نہ ملنے کا ہے اور دوسرا وہ اگر اس بابت بات کرتے ہیں تو انہیں نیشنل سکیورٹی ایکٹ و گینگسٹر ایکٹ کے تحت پولیس مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ڈکٹیٹر حکومتوں میں تو ایسا ہوتا ہے لیکن جمہوری نظام میں ایسا نہیں ہوتا۔ جمہوریت کے نام پر عوام سے ووٹ لے کر منتخب ہونا اور پھر عوام پر ہی تانا شاہی کرنا اور ان کی کنپٹی پر بندوق رکھنا اس کی زندہ مثال اتر پردیش کی یوگی ادتیہ ناتھ حکومت ہے۔