لاہور کے علاقے گڑھی شاہو کی ندا بی بی کی تین بیٹیاں ہیں اور تینوں ہی کے دل میں سوراخ ہے، جبکہ ان میں سے دو دونوں ہی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں اور ایک کی ایک آنکھ میں بینائی نہیں۔
ندا بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی طلا ق ہوچکی ہے اور وہ کرائے کے چھوٹے سے مکان میں بچیوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں کام کر کے دو وقت کی روٹی کماتی ہیں اور بچیوں کا علاج کرانے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک گاؤں سے ہے۔ 2003 میں ان کی شادی والدین کی مرضی سے لاہور میں محمد وسیم سے ہوئی تھی۔
جب ان کے ہاں پہلی بیٹی دعا پیدا ہوئی تو اس کے دل میں سوراخ تھا، پھر دوسری بیٹی خدیجہ پیدا ہوئی تو اس کے دل میں بھی سوراخ تھا اور وہ دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم تھیں۔ جب تیسری بیٹی فائقہ، جس کی عمر اب 12 سال ہے، پیدا ہوئی، تو وہ بھی دل کے مرض میں مبتلا تھی اور ایک آنکھ کی بینائی سے بھی محروم تھی۔
ندا کے بقول ان کے خاوند نے 2012 میں انہیں طلاق دی تو وہ بچیوں کے ساتھ گڑھی شاہو آگئیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان حالات میں گزارا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور کئی بار پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بچیوں کی دوا خریدنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان کے سابق خاوند محمد وسیم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے گھریلو لڑائی جھگڑے پر بیوی کو طلاق دی اور وہ خود بچیوں کو ساتھ لے گئیں، دوسری شادی کر لی لیکن یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے اور وہ اس حوالے سے مزید بات نہیں کرنا چاہتے۔
ندا بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کوئی مرد نہ ہونے پر اپنی اور بچیوں کی حفاظت کا خیال بھی خود ہی رکھنا پڑتا ہے۔
ان کی بیٹیوں کو لاحق مرض کے بارے میں ماہر امراض دل ڈاکٹر سلمان حسیب کا کہنا تھا کہ دل میں سوراخ کا مسئلہ بچوں میں خاندانی وجہ یا کچھ جینیاتی خرابی کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا ڈاؤن سنڈروم والے بچوں میں تناسب 25 سے 28 فیصد ہو سکتا ہے جن میں بچے دل کے سوراخ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی بار ماں کو دوران حمل انفیکشن کی وجہ سے بھی بچوں کے دل میں سورخ ہوسکتا ہے اور دوران حمل ماں کی ادویات کے استعمال پر بھی بچے دل میں سوراخ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر سلمان حسیب کے مطابق 25 فیصد بچوں میں پیدائشی طور پر دل میں سوراخ ہوتا ہے، کچھ سوراخ چھوٹے ہوتے ہیں اور کچھ بڑے ہوتے ہیں۔
’اگر بچوں کے دل میں چھوٹا سوراخ ہو تو وہ خود بخود بھی ٹھیک ہوسکتا ہے، لیکن کئی بار علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور جن بچوں کے دل میں سوراخ بڑا ہوتا ہے ان کا آپریشن کرنا پڑتا ہے۔‘
ان کے مطابق جس بچے کو سوراخ کا مسئلہ درپیش ہو تو 10 سے 15 فیصد بچوں کی صحت یابی کا امکان ہوتا ہے۔ اگر ماں کے حاملہ ہونے پر مناسب ادویات استعمال ہوں اور خاندانی طور پر اس بیماری کا خدشہ ہو اس پر پہلے سے قابو پایا جاسکتا ہے۔