وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017کی 49 شقوں میں ترامیم لانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ان ترامیم کے تحت انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال، بیرون ملک پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے، انتخابی امیدواروں کی جانب سے ریٹرننگ افسران کی تعیناتیوں کو چیلنج کرنے، نادرا کی انتخابی فہرستوں کی تیاری اور حلقہ بندیاں آبادی کی بجائے رجسٹرڈ ووٹروں کی بنیاد پر کی جاسکیں گی۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق پیر کو اسلام آباد میں پاک چائنا فرینڈشپ سینٹر میں وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ’وزیراعظم نے انتخابی اصلاحات کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں الیکشن ایکٹ 2017 کی 49 شقوں میں ترامیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بعض نئی شقیں بھی شامل کی جائیں گی اور کچھ ختم بھی کی جارہی ہیں۔‘
بابر اعوان کا کہنا تھا: ’انتخابی اصلاحات ایسا مسئلہ ہے، جس سے آئینی بحران تو پیدا نہیں ہوگا مگر آئینی اداروں پر عدم اعتماد بڑھے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ مشکلات اور کرونا (کورونا) کی صورتحال کے باوجود خصوصی کمیٹیوں اور قومی اسمبلی کے اجلاس منعقد کیے گئے۔ ’وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکومت انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا سول سوسائٹی، اے پی این ایس، سی پی این ای، بار کونسلز، بار ایسوسی ایشنز اور پریس کلبز کی سطح پر لے کر جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انتخابی اصلاحات کے چیدہ چیدہ نکات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018 سے 2021 تک دھاندلی کے الزامات لگائے جارہے ہیں مگر کسی بھی فورم پر دھاندلی کا ایک ثبوت بھی پیش نہیں کیا جاسکا۔ وزیراعظم کے ویژن کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 103 میں ترمیم لائی جائے گی، جس کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال کیا جاسکے گا، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لیے سیکشن 94 میں ترمیم لائی جائے گی، سیکشن 202 میں ترمیم کی جائے گی اور 213 اے نئی شق متعارف کرائی جائے گی جس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری اقدار کے فروغ اور سیاسی جماعتوں کے لیے اپنا سالانہ کنونشن منعقد کرنا لازمی ہوگا۔
بابر اعوان نے مزید بتایا کہ ’پولنگ سٹاف کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے شق 15 میں ترمیم لائی جارہی ہے، جس کے مطابق انتخابی امیدوار آر او کی تقرری کو 15 دنوں میں چیلنج کرسکے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جعلی ووٹ کے سدباب کے لیے نادرا کے ڈیٹا کی بنیاد پر انتخابی فہرستیں تیار ہوں گی۔ انتخابی حلقہ بندیاں درست کرنے کے لیے آبادی کی بجائے نادرا کی ووٹر فہرستوں کے مطابق رجسٹرڈ ووٹروں کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔‘
بابر اعوان نے مزید کہا کہ ’ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو کسی ایک بھی سیاسی جماعت کے مفاد میں ہو۔ ہم نے 16 اکتوبر 2020 کو انتخابی قوانین ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، جس کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ اس حوالے سے ہم دیگر راستے بھی اختیار کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کے لیے دو آئینی ترامیم بھی لائی جائیں گی۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کسی ایک جماعت کی نہیں سب کی ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور تمام صوبوں میں الیکشن کمیشن کے دفاتر موجود ہیں۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے ہر علاقے کے حالات کے مطابق الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا، کسی جگہ کا موازنہ بھی راولپنڈی وغیرہ سے نہیں کیا جائے گا۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا حتمی فیصلہ تمام فریقین کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا
بابر اعوان کا مزید کہنا تھا: ’انتخابی ایکٹ 2017کی شق 11 میں ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو مزید خودمختاری دی جائے گی جبکہ ایک اور ترمیم بھی لائی جا رہی ہے، جس کے ذریعے جو بھی سینیٹ اور قومی اسمبلی کا منتخب رکن 60 دن تک حلف نہیں اٹھائے گا اس کی نشست ختم تصور ہوگی۔‘