بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری سرکاری ملازمین کو ’ملک کی سلامتی کے مفاد میں‘ برطرف کرنا شروع کر دیا ہے۔
کشمیری سرکاری ملازمین کی برطرفی کا سلسلہ ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے جب بھارت بھر میں کرونا (کورونا) وائرس کے قہر کی وجہ سے روزانہ ہزاروں لوگ ہلاک ہو رہے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
کشمیر میں تعینات بھارتی حکومت کے نمائندے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے گذشتہ روز تین کشمیری سرکاری ملازمین بشمول ایک اسسٹنٹ پروفیسر، ایک نائب تحصیلدار اور ایک مڈل سکول ٹیچر کو ملازمت سے فارغ کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
برطرفی کے تین الگ الگ احکامات، جن کا متن ایک جیسا ہے، میں کہا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر مطمئن ہیں کہ ملک کی سلامتی کے مفاد میں ان معاملات (کیسز) کی تحقیق کرنا لازمی نہیں ہے۔
جن ملازمین کو ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے انہیں اپنا دفاع کرنے یا اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ہے۔
ملازمین کی برطرفی کے لیے بھارتی آئین کی دفعہ 311 کی ذیلی شق 2 (سی) کا سہارا لیا گیا ہے جس کے تحت بھارت کے صدر یا ریاست کے گورنر تحقیقات کے بغیر کسی بھی سرکاری ملازم کو ’ملک کی سلامتی کے مفاد‘ میں ملازمت سے فارغ کر سکتے ہیں۔
پانچ اگست 2019 (وہ دن جب کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی) سے قبل بھارتی آئین کی دفعہ 311 کا کشمیر پر اطلاق نہیں ہوتا تھا۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے متذکرہ دفعہ کے تحت کشمیر میں ’ملک مخالف سرگرمیوں‘ میں ملوث ہونے کے الزام میں سینکڑوں ملازموں کو برطرف کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے لیے ایک خصوصی ’ٹاسک فورس‘ تشکیل دی گئی ہے۔
برطرف کیے جانے والے تین ملازم کون ہیں؟
کشمیری سرکاری ملازمین کی برطرفی کا سلسلہ جن تین ملازموں سے شروع کیا گیا ہے ان میں گورنمنٹ ڈگری کالج وومن ادھم پور میں تعینات جغرافیہ کے اسسنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری نائیک، پلوامہ کے نائب تحصیلدار نذیر احمد وانی اور گورنمنٹ مڈل سکول کرالپورہ کپوارہ میں تعینات ٹیچر ادریس جان شامل ہیں۔
ان سب کو مبینہ طور پر محض اس بنیاد پر برطرف کیا گیا ہے کہ ان کے خلاف مختلف پولیس تھانوں میں مقدمے درج ہیں جن میں ان کے خلاف ’ملک سے بغاوت‘ یا ’ملک مخالف سرگرمیاں انجام دینے‘ کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالباری فی الوقت جیل میں بند ہیں اور ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون کی دفعہ 13 کے تحت دو مقدمے درج ہیں۔
ان کے بھائی عبدالرؤف نائیک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈاکٹر عبدالباری نے آج تک کوئی ایسی بات کی ہے نہ حرکت جو ’بھارت مخالف یا ملک کی سلامتی‘ کے خلاف ہو۔
انہوں نے کہا: ’میرا بھائی ایک اسسٹنٹ پروفیسر اور سماجی کارکن ہے۔ وہ نظام میں شفافیت لانے کے لیے سرگرم تھے۔ وہ شخص جس نے 2014 میں اسمبلی الیکشن لڑا ہو، کرپشن کے خاتمے کے لیے جنگ چھیڑی ہو اور پچھلے سال گورنمنٹ ڈگری کالج کولگام میں قائم قرنطینہ مرکز کا انچارج رہا ہو وہ آج اچانک ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ کیسے بن گیا؟‘
عبدالرؤف نائیک نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالباری کی برطرفی کے حکومتی فیصلے نے ہمیں پریشان کر دیا ہے۔ ’ہمیں یقین نہیں آ رہا کہ ایسا کیسے کیا گیا ہے۔ انہیں اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ہے۔ ان کا دو سال کا بچہ اور بیوی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’بحیثیت سماجی کارکن ڈاکٹر عبدالباری نے 2013 میں نظام میں شفافیت لانے کے لیے حق اطلاعات قانون کے تحت بدعنوانی اور نا انصافی کے خلاف لڑنا شروع کیا۔ ان کی سبھی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ان میں سے ایک بھی ویڈیو ایسی نہیں جو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کرتی ہو۔ وہ تو لوگوں کے مسائل اجاگر کرتے تھے۔ میں نے کچھ دن پہلے کولگام کے ضلع پولیس افسر سے ذاتی طور پر ملاقات کی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے خاندان کے سبھی افراد کے بینک کھاتے اور فون کالوں کی جانچ کرائیں۔ اگر آپ کو ایک فیصد بھی ایسا ملتا ہے جو ملک کی سلامتی کے خلاف ہو تو آپ ڈاکٹر عبدالباری کو چھ ماہ نہیں چھ سال تک جیل میں رکھ سکتے ہیں۔‘
عبدالرئوف نائیک نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالباری 2013 سے مختلف کالجوں میں پڑھاتے آئے ہیں۔ ’اس دوران ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون کے تحت جو دو مقدمے درج ہوئے ہیں ان میں سے ایک جعلی اسناد پر ملازمت حاصل کرنے کے سکینڈل کو طشت از بام کرنے اور دوسرا غیر قانونی مائننگ کو ایکسپوز کرنے پر درج کیے گئے ہیں۔ رواں برس 30 جنوری کو انہیں ڈگری کالج کولگام سے ڈگری کالج ادھم پور ٹرانسفر کیا گیا۔ چھ مارچ کو کولگام پولیس کی ایک ٹیم نے انہیں ادھم پور سے گرفتار کیا اور دعویٰ کیا گیا کہ وہ 2018 سے گرفتاری سے بچنے کے لیے فرار تھے۔ اگر وہ مفرور تھے تو بچوں کو کون پڑھا رہا تھا اور پچھلے سال کولگام میں قائم قرنطینہ مرکز کا انچارج کون تھا؟‘
گورنمنٹ مڈل سکول کرالپورہ کپوارہ میں تعینات ٹیچر ادریس جان مبینہ طور پر کشمیر میں استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی تنظیم ’تحریک حریت‘ کے حامی رہ چکے ہیں۔
ان کے خلاف ایک سے زیادہ مقدمے درج ہیں اور وہ مبینہ طور پر پبلک سیفٹی ایکٹ نامی متنازع قانون کے تحت دو بار جیل بھی جا چکے ہیں۔
ادریس جان نے بتایا کہ 2016 میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی کی ہلاکت کے خلاف بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر کے دوران ان خلاف سنگ بازی کے الزام میں جھوٹے مقدمے درج کیے گئے۔
’مجھے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں سنگ بازی میں ملوث ہونے کے ثبوت نہ ملنے پر ہائی کورٹ نے مجھے الزامات سے بری کر دیا۔ 2016 میں ہی میرے والد کا انتقال ہوا اور گھر کا پورا بوجھ میرے کندھوں پر آ گیا۔ میں کبھی کسی غیر قانونی کام کا مرتکب نہیں ہوا اور اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے دیتا رہا۔ لیکن گذشتہ روز اچانک فوج نے میرے گھر کو محاصرے میں لیا۔ دو مجسٹریٹ آئے اور انہوں نے مجھے ایک مہر بند لفافہ تھما دیا۔ جب میں نے لفافہ کھولا تو اس میں میری برطرفی کا حکم نامہ تھا۔‘
ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے نائب تحصیلدار نذیر احمد وانی کو مبینہ طور پر اس وجہ سے ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے کیونکہ سکیورٹی فورسز کو گذشتہ سال مئی میں ایک دکان، جو موصوف کی پراپرٹی ہے، کے نیچے عسکریت پسندوں کی ایک پرانی کمیں گاہ ملی تھی۔
سکیورٹی فورسز نے تب نذیر احمد وانی کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار بھی کیا تھا۔ تاہم انہیں بعد ازاں عدالتی احکامات پر رہا کر دیا گیا تھا۔
’یہ بہت بڑی نا انصافی ہے‘
کشمیر میں سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیم ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدر محمد رفیق راتھر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک تھانے دار کی رپورٹ پر ملازمین کو نوکری سے برطرف کرنا بہت بڑی نا انصافی ہے۔
’اس طرح کے فیصلوں سے حکومت اور ملازمین کے رشتے میں کڑواہٹ پیدا ہوگی۔ یہ وہ ملازمین ہیں جنہوں نے مشکل ترین حالات میں اس ریاست کے نظام کو چلایا ہے۔ آپ ان ملازمین کو موقع دیں تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکیں۔ انہیں قانون کے تحت یہ حق حاصل ہے۔ اگر یہ حکم نامے عدالتی فیصلوں پر جاری کیے جاتے تو ان کو ماننے کی ایک وجہ بنتی تھی۔‘
محمد رفیق نے بتایا کہ بے شک ایک سرکاری ملازم ایسا کام انجام نہیں دے سکتا جو ملک مخالف ہو لیکن اپنا دفاع کرنا ہر ایک کا حق ہے۔
’یہاں یہ لوگ ایسے قوانین بنا رہے ہیں کہ ایک ملازم انصاف کے لیے عدالت بھی نہیں جا سکتا۔ ہم لیفٹیننٹ گورنر سے ملنے کی کوشش کریں گے۔ ہم ان سے کہیں گے یہ چیزیں ریاست کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ اگر لوگ قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔‘
سرکاری ملازموں کی ایک اور نمائندہ تنظیم کے صدر سجاد احمد پرے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملازمین کی اچانک برطرفی کا فیصلہ ایک آمرانہ اقدام اور سراسر نا انصافی ہے۔
’آئین ہند ہر ایک کو اپنی صفائی میں بولنے کا حق دیتا ہے۔ برطرف کیے جانے والے ملازمین سے عدالت جانے اور اپنی صفائی پیش کرنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ ایسے اقدامات کی وجہ سے یہاں کا ورک کلچر ختم ہو سکتا ہے۔ حکومت اور ملازمین کے رشتے پر منفی اثرات پڑیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اگر کسی نے کوئی غلطی کی ہے تو اس کو سزا دی جائے لیکن ساتھ ہی اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع بھی تو دیا جائے۔ ملازمین کی سبھی تنظیمیں مل بیٹھ کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔‘
سیاسی جماعتوں اور حریت کا سخت ردعمل
کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں اور استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں نے سرکاری ملازمین کو نوکری سے برطرف کرنے کی پالیسی پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ کشمیر میں سرکاری ملازمین کو ناپائیدار بنیادوں پر برطرف کرنے کی بجائے کرونا بحران پر قابو پانے پر توجہ مرکوز کرے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا: ’کرونا قہر کے چلتے حکومت ہند کو اپنی توجہ لوگوں کو بچانے پر مرکوز کرنی چاہیے نہ کہ کشمیر میں سرکاری ملازمین کو ناپائیدار بنیادوں پر برطرف کرنے پر۔ ان ہی غلط ترجیحات کی وجہ سے بھارت آج شمشان گھاٹ اور قبرستان میں تبدیل ہو چکا ہے۔ زندہ لوگوں کو تکلیفوں کا سامنا ہے اور مردے عزت و وقار سے محروم ہیں۔‘
کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے سینیئر لیڈر محمد اکبر لون نے سرکاری ملازمین کو بغیر تحقیقات برطرف کرنے کے حکمناموں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ’تاناشاہی‘ پر مبنی اس طرز عمل کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’یہ ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے اور اسے سنجیدگی سے نہ لینا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اس سے قبل گذشتہ سال ایک اور حکم نامے کے ذریعے حکومت کو اس بات کا مجاز بنایا گیا کہ وہ ملازمین کو 48 سال کی عمر میں سبکدوش کرسکتی ہے۔ اس طرز عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نئی دلی جموں و کشمیر کے عوام کو اندھیروں میں دھکیل کر محتاج بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ کشمیر بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے لیکن یہاں ایک منصوبہ بند طریقے سے غیر مقامی افسروں کو مسلط کیا گیا ہے جو آئے روز اس طرح کے عوام کش اور کشمیر دشمن حکم نامے جاری کر رہے ہیں۔‘
میرواعظ مولوی عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ آج جہاں عوام کرونا کی وجہ سے پریشان ہے وہیں حکمران طبقہ عوامی مصائب اور مشکلات کو کم اور حل کرنے کی بجائے اس طرح کی ظالمانہ کارروائیوں میں لگا ہے۔
یہاں یہ لوگ ایسے قوانین بنا رہے ہیں کہ ایک ملازم انصاف کے لیے عدالت بھی نہیں جا سکتا۔
بیان میں کہا گیا: ’برسر روزگار ملازمین کو روزگار سے محروم کرنے کی کارروائی انتہائی غیر انسانی اور ظالمانہ ہے۔ انسانی حقوق کی محافظ تنظیموں کے علاوہ قانونی ماہرین سے اپیل ہے کہ وہ حکومت کے اس طرح کے سخت اقدامات کا سنجیدہ نوٹس لیں اور کشمیر کے سرکاری ملازمین کو ان کے حقوق کے تحفظ کے ضمن میں ہرممکن مدد فراہم کریں۔‘
ملازمین کے خلاف کارروائی نئی نہیں
کشمیر میں رونما ہونے والے حالات اور واقعات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی یہاں سرکاری ملازمین کو ’ملک دشمن‘ ہونے کے الزام میں ملازمت سے فارغ کیا جا چکا ہے۔
اکتوبر 2016 میں اس وقت کی پی ڈی پی – بی جے پی حکومت نے ملک دشمن سرگرمیوں، بشمول برہان وانی کی ہلاکت کے بعد شورش بھڑکانے، میں ملوث ہونے کے الزام میں 16 سرکاری ملازموں کو نوکریوں سے بر طرف کیا تھا۔
تاہم ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدر محمد رفیق راتھر کے مطابق برطرف کیے گئے ملازموں نے جب عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہیں بحال کر دیا گیا۔
ان ملازمین پر صرف بھارت کی خود مختاری و سالیمت پر سوال اٹھانے کے پاداش میں ہی الزمات عائد نہیں کیے گئے تھے بلکہ جموں وکشمیر ایمپلائز کنڈکٹ رولز 1971 کی خلاف ورزی کرنے کا بھی مرتکب قرار دیا گیا تھا۔
1990 میں جب کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک نے تشدد کا رخ اختیار کیا تو جموں و کشمیر حکومت نے پانچ اعلیٰ افسروں کو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور علیحدگی پسند موقف کی تائید کرنے کے پاداش میں برطرف کر دیا۔
ان میں سے ایک نعیم اختر بھی تھے جو اُس وقت محکمہ ایکسائز میں ڈپٹی کمشنر تھے جنہوں نے دوسروں کے ساتھ مل کر کشمیر میں سرکاری ملازموں کی تین ماہ طویل ہڑتال کی سربراہی کی تھی۔
نعیم اختر نے نوکری سے سبکدوشی کے بعد پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی اور پی ڈی پی – کانگریس اور بعد میں بی جے پی – پی ڈی پی حکومت میں وزیر رہے۔ وہ فی الوقت حکومت مخالف آواز بلند کرنے کے پاداش میں زیر حراست ہیں۔
قبل ازیں سال 1986 میں جموں و کشمیر کے اُس وقت کے گورنر جگموہن ملہوترا نے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے پاداش میں کئی سرکاری ملازموں کو برطرف کیا۔ ان میں علیحدگی پسند رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ بھی شامل تھے۔