آل پاکستان انجمن تاجران نے عید سے قبل آٹھ مئی سے 16 مئی تک لگنے والے لاک ڈاؤن کو مسترد کر دیا ہے، جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ ایس او پیز پر ہر صورت عمل کروایا جائے گا اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جنرل سیکریٹری آل پاکستان انجمن تاجران نعیم میر نے ایک روز قبل اپنے فیس بک پیج پر بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’تاجر برادری آٹھ سے 16 مئی تک کے لاک ڈاؤن کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتی ہے۔ اس غیر فطری لاک ڈاؤن پر تاجر برادری عمل کرنے سے قاصر ہوگی اور انتظامیہ کی زور زبردستی ہمیں تصادم کی جانب لے جائے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت فلیگ مارچ کے ذریعے دہشت پھیلانا بند کرے اور تاجروں کے ساتھ مل کر عید کی خریداری کی ہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کی جائے۔ حکومت ڈرامے بازیاں، رنگ بازیاں اور ڈالے بازیاں بند کرے۔ حکومت کو عام تاجر کی حالت زار کو سمجھنا ہو گا۔ ’چھوٹا تاجر کاروبار بند نہیں کرے گا۔ بہت معذرت۔‘
تاہم دوسری جانب لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کی رٹ کو چیلنج نہیں ہونے دیں گے اور ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے پولیس، رینجرز، فوج اور دیگر اداروں کے افسران مل کر کام کریں گے۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے جب انجمن تاجران کے جنرل سیکریٹری نعیم میر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’چھوٹا تاجر متحمل ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے کاروبار اور دکانوں کو اتنے لمبے لاک ڈاؤن کے لیے عید کی خریداری کے دنوں میں بند کر سکے۔ عید کی خریداری کے لیے سعودی عرب نے 24 گھنٹے کاروبار کا اعلان کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ بڑے شاپنگ مالز یا ہول سیل مارکیٹوں کو کھولیں۔ ’بیماری کے سبب آپ انہیں ضرور بند کریں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن چھوٹے تاجروں کے مالی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایک ہفتے میں تو ان کا دیوالیہ نکل جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دکانیں کھلوانے یا بند کرنے کی کوئی مقابلہ بازی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے مسئلے کو ریاست کو سمجھانہ ہے۔ ’ہم تو کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت چھوٹے تاجر کو رلیف دے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر کرونا وبا کی تباہ کاریاں جاری ہیں تو جس طرح رمضان کے سستے بازار ہیں اس طرح کے کئی کھلی جگہوں جیسے پارکس یا پلے گراؤنڈز میں تاجروں کے سٹالز لگوا دیں، تاکہ لوگ وہاں اپنی روزی کما لیں اور بند اور تنگ جگہ کا مسئلہ بھی نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جو آج کل فوج، رینجرز اور پولیس کی فلیگ مارچز چل رہی ہیں یہ بہت محدود وقت کے لیے ہوتی ہیں۔ فلیگ مارچ آتا ہے گزر جاتا ہے۔ ان کے آنے کے وقت لوگ دکانیں بند کر دیتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد پھر کھول لیتے ہیں۔ یہ ایک دکھاوے کی کارروائی ہے جو انتظامیہ کر رہی ہے۔ ظاہر ہے وہ بھی اپنی طرف سے اپنی ذمہ داری ادا کر رہی ہے۔‘
نعیم میر کا کہنا تھا انتظامیہ کے پاس اتنی گنجائش ہی نہیں ہے کہ یہ اتنے بڑے علاقوں کو کنٹرول کر سکیں یا اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں کو منع کر سکیں۔ ’یہ تو ایک طرح کا میڈیا سٹنٹ ہے جو میڈیا پر دکھائی دیتا ہے کہ فورسز کام کر رہی ہیں اور دکانیں بند ہوگئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑے افسران برستے رہیں گے، نیچے کا عملہ پیسے لے کر دکانیں کھولتا رہے گا۔ دکانیں کھلی رہیں گی، کاروبار چلتا رہے گا۔ یہی ہونا ہے۔کرپشن ہی ہونی ہے اور کیا ہونا ہے؟‘
نعیم میر کہتے ہیں کہ حکومت نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ انہوں نے عید سے ایک ہفتہ قبل لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ کرونا کے پھیلاؤ کے باوجود دکانوں اور رٹیل مارکیٹس میں رش ہے کیونکہ لوگوں کوڈر ہے کہ لاک ڈاؤن ہو رہا ہے اور انہیں شاید پھر چیزیں نہ ملیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہ حکومت نے ’کرونا کو بڑھانے کے اسباب خود ہی مہیا کر دیے۔ ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ سعودی عرب جیسا ملک 24 گنٹے دکانیں کھول رہا ہے اور کاروبار چلوا رہا ہے تاکہ رش نہ ہو تو یہ عقل اور منطق پر مبنی جو دلیل ہے وہ ہم کیوں نہیں اپنا رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دکانیں کھلی رکھنے کا مطالبہ ہمارا عید شاپنگ ایریاز کے لیے ہے باقی جو عام کاروبار ہے وہ تو یہ مطالبہ ہی نہیں کر رہے کہ انہیں 24 گھنٹے کھولا جائے۔ ’مسئلہ جس کاروباری طبقے کو آرہا ہے آپ اس کی طرف دیہان ہی نہیں دے رہے۔ اس طرح دکانیں بند کروانا اور لاک ڈاؤن ایک غیر فطری عمل ہے جس کا نتیجہ یہ نکلنا ہے وقتی طور پر دکانیں بند ہوں گی لیکن پھر کھل جائیں گی کیونکہ یہ قابل عمل منصوبہ ہی نہیں ہے۔‘
’جس وقت حکومت کہے گی، اس سے آدھا گھنٹہ پہلے دکانیں بند کر دیں گے‘
دوسری جانب لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کے صدر سہیل منج نے اس حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تاجر حکومت کے فیصلے کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا تاجروں نے 24 گھنٹے دکانیں کھلی رکھنے کے حق میں ٹرینڈ چلوایا اور وہ خود بھی اس کے حق میں ہیں کیونکہ مارکیٹوں کا وقت کم کرنے سے رش بڑھ جاتا ہے اور کرونا زیادہ پھیل سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاجروں نے سوشل میڈیا پر ویڈیو بھی پوسٹ کی ہیں جس میں دیکھ سکتے ہیں رش بڑھ گیا ہے اس لیے مارکیٹ کھلے رہنے کا وقت بھی بڑھایا جائے۔ لیکن اگر حکومت نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا تو ہم زبردستی تو دکانیں نہیں کھول سکتے۔ پولیس یا فوج آجاتی ہے تو آپ کس طرح انہیں انکار کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بطور صدر لبرٹی مارکیٹ، ’جس دن حکومت لاک ڈاؤن کا کہے گی ہم اس سے آدھا گھنٹہ پہلے دکانیں بند کر کے چلے جائیں گے۔‘
انتظامیہ کیا کر رہی ہے؟
لاک ڈاؤن پر عمل درآمد ہو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے آج کل روزانہ ضلعی انتظامیہ پولیس اور دیگر فورسز کے ہمراہ شہر بھر کا گشت کرتی ہے اور ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والوں یا مقررہ وقت کے بعد دکانیں کھولنے والوں کے خلاف کارروائیاں بھی کرتی ہے۔ اس کے باوجود مشاہدے میں یہ آیا ہے کہ کچھ دکانوں میں شام چھ بجے کے بعد بھی پچھلے دروازوں سے خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
تاجروں کے بیان کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر لاہور مدثر ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیلڈ افسران اسسٹنٹ کمشنرز اپنے اپنے علاقوں کا متواتر دورہ کر رہے ہیں اور اس بات کی یقین دہانی کر رہے ہیں کہ دکانیں حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق بند ہوں اور صرف وہی کھلی ہوں جنہیں اجازت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’آٹھ سے 16 مئی کو عید سے قبل جو لاک ڈاؤن لگے گا اس کے حوالے سے جو بھی احکامات جاری ہوں گے اس پر عمل درآمد کروائیں گے۔ ہمارے ساتھ پولیس ہے رینجرز ہے ہم ساتھ مل کر چل رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ لاہور کے رہائشیوں، تاجروں اور دکانداروں سے درخواست بھی کرتے ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران ہمارا پورا ساتھ دیں اور اپنے گھروں سے بلا ضرورت نہ نکلیں۔ ’آپ ہفتہ اور اتوار کو کاروباری سرگرمیوں کے بند ہونے سے دیکھیں کرونا کیسوں میں واضع کمی واقع ہوئی ہے۔میں نے خود بھی ان دنوں میں روٹس کا وزٹ کیا تو ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی جس سے یہ ثابت ہوا کی عوام الناس بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ‘
ڈپٹی کمشنر لاہور نے کہا کہ آج سے ہم تاجروں کو بھی آن بورڈ لے رہے ہیں ان سے ملاقات کریں گے اور انہیں سمجھائیں گے کہ وہ لاک ڈاون کے دنوں میں ہمارا ساتھ دیں اور حکومتی احکامات پر عمل درآمد کو ہمارے ساتھ مل کر یقینی بنائیں۔
دوسری جانب ترجمان سی سی پی او لاہور پولیس عارف علی رانا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’تاجران کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا نہ ہم ان کی بات کو اتنی سنجیدگی سے لیں گے کہ اس پر کوئی تبصرہ کریں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حکومت کی رٹ کو چیلنج نہیں ہونے دیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ پولیس ضلعی انتظامیہ کے شانہ بشانہ چل رہی ہے اور ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے مشترکہ ٹیمیں بنی ہوئی ہیں جن میں پولیس، رینجرز، فوج اور دیگر اداروں کے افسران شامل ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا: ’ہم فلیگ مارچ اس لیے کرتے ہیں تاکہ لوگوں میں آگاہی پھیلائیں۔ دوسرا ضلعی انتظامیہ کو مضبوط کرتے ہیں۔ آپ فلیگ مارچ کے بعد دکانیں کھول کر دکھائیں۔ ہم تاجروں کے کہنے پر نہیں چلیں گے بلکہ حکومت کے جو احکامات جاری ہوئے ہیں ہم ان پر عملدرآمد کروائیں گے۔‘
انہوں نے حالیہ دنوں میں خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا غیرسنجیدہ باتیں ہوتی ہیں۔ چھ بجے کے بعد دکانیں بند ہیں تو بند ہیں۔ اگر کسی کو کسی قسم کا کوئی ابہام ہے تو اس کی خام خیالی ہے۔ پولیس اس میں کسی بھی طرح بیک فٹ پر نہیں جائے گی۔‘