پاکستان میں ایک حالیہ تحقیق کے دوران معلوم ہوا ہے کہ کرونا وائرس کی تیسری لہر کی وجہ 98 فیصد تک برطانوی قسم ہے جبکہ باقی دو فیصد جنوبی افریقہ سے یہاں منتقل ہوئی ہے۔
وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ڈاکٹر جاوید اکرم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ قسم انتہائی شدید حملے کر رہی ہے کیونکہ تیسری لہر سے بچے بھی محفوظ نہیں رہے اور اموات کی شرح بھی زیادہ ہے۔
’چونکہ یہ آر این اے وائرس ہے اس لیے اس میں یہ تبدیلیاں کوئی اچنبھے کی بات نہیں، اس کا واحد حل احتیاط ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ بھارت اور پاکستان میں پائے جانے والے کرونا وائرس میں کیا فرق ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ بھارت میں آنے والا وائرس ڈبل میوٹنٹ ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرناک ہوچکا ہے۔ ’یہ اب بھارتی ویرینٹ بن چکا ہے لیکن پاکستان میں ابھی برطانونی ویرینٹ تبدیل نہیں ہوا۔‘
ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ ابھی تک دنیا بھر میں بننے والی ویکسینز سو فیصد کرونا سے تحفظ فراہم نہیں کرتیں، یہ صرف 70 فیصد تک محفوظ رکھتی ہیں تاہم موجودہ حالات میں ویکسین ہی موثر حل دکھائی دیتی ہے۔
دوسری جانب چغتائی لیب اور چغتائی انسٹی ٹیوٹ آف پیتھالوجی نے پنجاب، پاکستان میں وبائی امراض کی تیسری لہر کے دوران COVID-19 برطانیہ کے متغیر کی اہمیت کی تصدیق کردی ہے۔
ان کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وائرولوجی اور سالماتی جینیات کے محکموں نے مختلف نمونوں کی جانچ کے لیے مارچ کے آخر میں بے ترتیب 62 نمونے اکٹھے کیے۔
مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ ہوا ہے کہ 62 نمونوں میں سے 60 (97٪) نسب B.1.17 (برطانیہ کی مختلف شکل) تھے اور دو نمونے نسبتاً B.1.351 (جنوبی افریقہ کے مختلف حصے) ایک جینومک مطالعے کے ذریعے پائے گئے۔
اس تحقیق میں یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وائرس کے ابتدائی مختلف ردوبدل (ووہان مختلف شکل) کی عدم موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس نے خود کو اصل تناؤ سے مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے۔
اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان (ہیڈ آف وائرولوجی) ہیں جبکہ ٹیم میں ڈاکٹر سعادت علی (سالماتی جینیات کے سربراہ) اور ان کی ٹیم شامل ہے۔
پروفیسر اختر سہیل چغتائی اور ڈاکٹر عمر چغتائی نے پاکستان میں COVID-19 کی تیسری لہر کے دوران تیزی سے بڑھتے ہوئے کیس اور یوکے کے متغیر کے غلبے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
تیسری لہر میں پچھلے تین ماہ کے دوران کیسز میں بہت اضافہ دیکھا گیا۔ وائرس کا یہ تناؤ بچوں پر اثر انداز ہونے کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مطالعے کے نتائج واضح طور پر کم عمر افراد کی شمولیت کو ظاہر کرتے ہیں۔
بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز (سی ڈی سی) نے برطانیہ اور جنوبی افریقہ کے متغیرات کی فہرست میں شامل کیا ہے جس کی عالمی سطح پر گہری نگرانی کی جارہی ہے کیونکہ ان میں تیزی سے پھیلنے کا رجحان ہے۔
اب تک کی جانے والی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ فی الحال مجاز ویکسینوں کے ذریعے تیار کردہ اینٹی باڈیز ان مختلف حالتوں کے خلاف موثر ہیں۔
وائرس کی تیزی سے بدلتی ہوئی نوعیت کے پیش نظر، یہ تحقیق پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے عوامی اجتماعات اور ذاتی حفظان صحت میں اضافے کے لیے موثر لاک ڈاؤن کی ضرورت کی تائید کرتی ہے۔