پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو میں ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ رابطوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ’فارمل بیک چینل‘ نہیں ہے۔
جمعرات کی رات کو نیوز چینل سما کے پروگرام میں ایک سوال کیا گیا کہ کیا پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض بھارتی ہم منصب را کے سربراہ سے گذشتہ دو برسوں سے پہلے برطانیہ اور پھر متحدہ عرب امارت میں ملتے رہے ہیں؟ اس کے جواب میں وزیر خارجہ نے اس کی تردید تو نہیں کی لیکن وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اسے فارمل بیک چینل نہیں کہوں گا وہ ایک دوسرے کو صورت حال کے بارے میں گاہے بگاہے آگاہ کرتے رہے ہیں۔‘
پاکستانی حکام نے حالیہ دنوں میں بھارت کے ساتھ رابطوں کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔ تاہم وزیر خارجہ کا بیان اس پر صورت حال قدرے واضح کرتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے ایک سوال میں اس تاثر کی نفی کی کہ بھارت کے ساتھ بات چیت میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض سرکردہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’لیڈ رول میں وزارت خارجہ ہی رہے گی۔ اس میں کسی کو شک و شبہہ نہیں ہونا چاہیے۔‘
بھارت کی سابق وزیر خارجہ آنجہانی سشما سوراج سے مئی 2019 میں ایس سی او سمٹ میں ملاقات کا ذکر کر تے ہویے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور اگر پاکستانی سیاسی قیادت آگے بڑھنا بھی چاہے تو آپ کے ادارے ایسا نہیں ہونے دیتے ہیں۔ اس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں۔ ’ہمارے ادارے بھی جیو سٹراٹیجک معاملات کو سمجھتے ہیں۔ آپ بھی اپنے اداروں کی رائے لیتے ہیں اور ہم بھی۔ آپ کا بھی فارن آفس سیاچن پر آگے بڑھنا چاہتا تھا لیکن ہندوستان کی فوج نے آگے بڑھنے نہیں دیا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے 29 اپریل کی ہفتہ وار بریفنگ میں بھی ان رابطوں کے بارے میں سوال کا مبہم جواب دیا تھا۔
ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے کبھی بھی بھارت کے ساتھ بات چیت سے گریز نہیں کیا۔ ’ہم نے مستقل طور پر کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ ’معنی آمیز بات چیت‘ اور جموں و کشمیر تنازعہ کے بنیادی مسئلے سمیت تمام مسائل کے پرامن حل کی ضرورت ہے۔ تاہم کسی بھی 'بامعنی' اور ’نتائج پر مبنی مکالمے‘ کے لیے ایک’'سازگار‘ اور 'فعال ماحول' انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔‘
پاکستان کی کوشش ہے کہ بھارت کشمیر سے متعلق اس کے 5 اگست 2019 کے فیصلے کو واپس لے تو تب ہی بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ اس بارے میں ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت نے پانچ اگست 2019 کے اپنے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے ذریعے ماحول کو تباہ کر دیا ہے لہذا یہ ذمہ داری بھارت پر ہے کہ وہ ایک فعال ماحول پیدا کرے تاکہ ایک ’بامعنی‘ اور ’نتیجہ خیز‘ بات چیت ہو سکے۔
اخباری اطلاعات تھیں کہ بھارت کے ساتھ رابطے بحال کرنے میں متحدہ عرب امارات اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس بارے میں ترجمان وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ جہاں تک تیسرے فریق کے کردار کا تعلق ہے، پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق علاقائی امن و استحکام کو لاحق خطرات کو ٹالنے اور جموں و کشمیر تنازعہ کے پائیدار حل کو آسان بنانے میں عالمی برادری کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے جس میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
تاہم وزیر خارجہ نے ترکی کے ٹی آر ٹی چینل کے ساتھ 23 اپریل کو ایک انٹرویو میں متحدہ عرب امارات کے ایسے کسی کردار سے انکار کیا تھا۔