بی بی سی کے پروگرام ’ہارڈ ٹاک‘ میں گذشتہ سال دسمبر میں پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اسحٰق ڈار کے انٹرویو کے حوالے سے اپنے ایک وضاحتی بیان میں اعتراف کیا ہے کہ ’اس پروگرام کے دوران میزبان کی جانب سے پاکستان کے 2018 کے عام انتخابات کے حوالے سے یورپین یونین کی رپورٹ کا حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔‘
یہ وہ رپورٹ تھی جس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انتخابات معتبر یا کریڈیبل نہیں تھے۔‘
اس انٹرویو کے چھوٹے چھوٹے کلپس بنا کر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی شئیر کیے گئے تھے، جن میں کہا جا رہا تھا کہ اسحٰق ڈار کو پروگرام کے میزبان سٹیفن سیکر نے اپنے سخت سوالات سے لاجواب کر دیا۔
بعض پاکستانی نیوز چینلز نے اسی انٹریو کو اردو ترجمہ کے ساتھ پاکستان میں نشر بھی کیا تھا جب کہ یہ انٹرویو کئی دنوں تک پاکستان میں سوشل میڈیا پر زیر بحث رہا۔
اس انٹرویو کے دو اہم سوالات کو بہت زیادہ شیئر کیا گیا، جن میں سے ایک سوال 2018 کے عام انتخابات کے حوالے سے ہے اور دوسرا اسحٰق ڈار کی جائیداد کے حوالے سے تھا۔
پروگرام میں اسحٰق ڈار جب 2018 کے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہیں تو میزبان سٹیفن سیکر کہتے ہیں کہ یورپی یونین کی انتخابی مشن کی رپورٹ میں 2018 کے انتخابات پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ انتخابات ’قابل اعتبار یا معتبر‘ (Credible) تھے۔
اسحاق ڈار نے روزنامہ ڈان کو بتایا کہ انہوں نے اس بات پر بی بی سی سے شکایت کی تھی۔
بی بی سی نے اب اپنی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی وضاحت میں لکھا ہے کہ پروگرام کی میزبان کو یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ ’کریڈیبل‘ کا لفظ یورپین یونین کی رپورٹ میں موجود نہیں ہے بلکہ یہ الفاظ یورپی یونین مشن جو عام انتخابات کا مشاہدہ کر رہا تھا، کے سربراہ مائیکل گاہلر نے مکمل رپورٹ شائع ہونے سے پہلے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا۔
وضاحت میں لکھا گیا ہے ’یورپین یونین کے سربراہ نے کریڈیبل کا بتایا تاہم یورپین یونین کی تفصیلی رپورٹ میں یہ نہیں لکھا گیا ہے کہ 2018 کے انتخابات کریڈبل تھے۔ بلکہ رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ووٹنگ کا طریقہ کار446 پولنگ سٹیشن میں شفاف طریقے سے کیا گیا تاہم گنتی اور نتائج کی جمع کرنے میں شفافیت کی کمی تھی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے دسمبر میں اس انٹرویو کے نشر ہونے کے بعد یورپین یونین کی اس رپورٹ جس کا حوالہ سٹیفن ساکر نے دیا تھا، کا تجزیہ کیا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس رپورٹ میں 2018 کے انتخابات کو کریڈبل قرار نہیں دیے گئے تھے۔ آج بی بی سی نے بھی اسی امر کی وضاحت کی کہ انتخابات کو ’کریڈیبل‘ قرار دینے کا ذکر رپورٹ میں موجود نہیں ہے۔
یورپین یونین الیکشن آبزرویشن مشن کی 2018کے انتخابات کا مشاہدہ کرنے والی ٹیم 24 جون 2018 سے 23 اگست 2018 تک پاکستان میں رہی اور ان کی ذمہ داریوں میں یہ شامل تھا کہ پاکستان کے عام انتخابات کے ہر پہلو کا مشاہدہ کریں۔ اس ٹیم میں تجزیہ کاروں سمیت مجموعی طور پر 70 لوگ شامل تھے، جن میں مختلف ممالک کی نمائندگی موجود تھی۔
اس ٹیم نے انتخابات کے دن پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں مجموعی طور پر 113 حلقوں میں 476 پولنگ سٹیشنوں کا مشاہدہ کیا جب کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر یہ ٹیم بلوچستان میں کسی بھی پولنگ سٹیشن کا مشاہدہ نہیں کرسکی تھی۔
اس مشن نے اکتوبر 2018 میں حکومت پاکستان کو اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی جس میں انتخابات کے حوالے سے مشاہدے سمیت حکومت کو انتخابات کو مزید بہتر بنانے کے لیے تجاویز بھی پیش کی گئیں۔
91صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہیں پر یہ نہیں لکھا گیا کہ 2018کے انتخابات ’کریڈیبل‘ تھے، تاہم اس میں یہ ضرور لکھا کیا گیا ہے کہ یہ الیکشن 2013 کے انتخابات سے بہتر تھے۔
'کریڈیبل' قرار دیے جانے کا بیان کہاں سے آیا؟
عام انتخابات 2018 کے بعد 27جولائی کو یورپی یونین کے الیکشن مشن کے نمائندوں نے اسلام آباد میں انتخابی مشاہدے کے بعد پریس کانفرنس کا انعقاد کیا، جس کے دوران اس مشن کے سربراہ مائیکل گاہلر نے اپنی رپورٹ کا مختصر خلاصہ پیش کیا، جس کی تفصیل اوپر دی گئی ہے اور جو اب بھی یورپی یونین الیکشن مشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس پریس کانفرنس کے حوالے سے جاری کردہ پریس ریلیز کا بھی مطالعہ کیا، لیکن اس میں بھی کہیں پر یہ نہیں لکھا کہ 2018کے انتخابات ’کریڈیبل‘ تھے اور نہ ہی اس میں یہ لکھا گیا کہ یہ انتخابات بالکل شفاف طریقے سے کرائے گئے ہیں۔
تاہم رپورٹ میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ قانون سازی کے حوالے سے 2013کے مقابلے میں 2018 کے انتخابات میں بہتری آئی ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مزید خود مختار بنایاگیا ہے جبکہ اس رپورٹ میں مزید بہتری کے لیے مشن کی جانب سے تجاویز بھی حکومت کو پیش کی گئیں۔
’منظم طریقے سے سابق حکومت کی کردار کشی‘
اس رپورٹ کے صفحہ نمبر 11 پر درج ہے کہ انتخابات سے قبل 2017 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی برطرفی کے حوالے سے فیصلے کے بعد اور اس کے بعد اپریل 2018 میں ان کی گرفتاری کے بعد ملک کی سیاست کا نقشہ بدل گیا۔
رپورٹ کے مطابق انتخابات سے قبل یہ الزامات لگائے گئے کہ ملٹری سٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرکے ایک مخصوص پارٹی، جس کی قیادت نواز شریف کر رہے تھے، کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور یہ رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں کہ ’اینٹی سٹیبلشمنٹ‘ پارٹیوں کے اراکین پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔
میڈیا سنسرشپ
انتخابات سے قبل میڈیا کوریج کے حوالے سے اس رپورٹ میں درج ہے کہ بہت سے میڈیا کے اداروں اور صحافیوں کے حق اظہار رائے کو دبایا جاتا رہا اور ان کو سنسرشپ کا کہا جاتا رہا۔
رپورٹ کے مطابق اس کی ایک مثال انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ ہے جس کی ترسیل کو روک دیا گیا کیونکہ انہوں نے نواز شریف کا ایک انٹرویو شائع کیا تھا۔
اسی طرح رپورٹ کے مطابق پوری انتخابی مہم کے دوران جیو نیوز کو کنٹونمنٹ علاقوں میں بند کردیا گیا تھا جب کہ مخلتف میڈیا اداروں کے ایڈیٹرز کو ٹیلی فون کے ذریعے ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ نواز شریف کی ملک واپسی کو لائیو کوریج نہ دی جائے۔
رپورٹ میں لکھا ہے: ’مجموعی طور پر یہ دیکھا گیا کہ مختلف سٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے مختلف ایسے حربے استعمال کیے گئے تاکہ انتخابات سے قبل سیاسی بیانیے کو کنٹرول کیا جاسکے اور سویلین بالادستی کو فوقیت مل سکے۔‘
سیاسی جماعتوں کی کوریج کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جیسی کوریج نہیں دی گئی تھی اور زیادہ تر میڈیا پر مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور پاکستان پیپلز پارٹی چھائے رہے، تاہم رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کے حوالے سے دو تہائی مواد منفی تھا جبکہ پی ٹی آئی کے بارے میں مواد یا تو غیر جانبدار یا پھر مثبت تھا۔‘
فوجی اہلکاروں کی پولنگ سٹیشنوں کے اندر تعیناتی پر تشویش
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر تین لاکھ 70 ہزار سے زائد فوجی اہلکار ملک بھر کے پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر تعینات کیے گئے تھے، جنہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے باقاعدہ ٹریننگ دی گئی تھی۔
یورپی یونین مشن نے رپورٹ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ فوجی اہلکاروں کی پولنگ سٹیشن کے اندر موجودگی سے ووٹرز کی گنتی اور نتائج میں مداخلت کا امکان تھا جبکہ کچھ پولنگ سٹیشنوں پر یہ دیکھا گیا کہ پریزائیڈنگ افسر نہیں بلکہ فوجی اہلکار پولنگ سٹیشن کے انچارج تھے۔
یورپی یونین کے مشاہدین نے بعض پولنگ سٹیشنوں پر یہ بھی دیکھا کہ ’فوجی اہلکار یا تو انتخابی عمل میں مداخلت کر رہے تھے یا پارٹی ایجنٹس پر پولنگ سٹیشن سے باہر رہنے پر زور دے رہے تھے، تاہم دو تہائی پولنگ سٹیشن، جن کا یورپی یونین کے مشن نے مشاہدہ کیا ہے، میں گنتی کا عمل ’مثبت‘ تھا۔‘
رپورٹ کے مطابق: ’مجموعی طور پر گنتی کے لیے تکنیکی اور لاجسٹک تیاری کافی اچھی تھی لیکن ووٹوں کی گنتی، ٹیبولیشن اور نتائج کے اعلان میں شفافیت کی کمی تھی، جس کی وجہ سے انتخابی بے قاعدگی کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
تاہم فوج کی پولنگ سٹیشنوں کے اندر موجودگی پر تشویش کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے یورپی یونین کے مشن کو بتایا کہ ’سیاسی جماعتوں کی درخواست پر پولنگ سٹیشن کے اندر فوجی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔‘ لیکن رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں نے یورپی یونین مشن کو بتایا کہ انہوں نے صرف پولنگ سٹیشن کے باہر سکیورٹی عملے کی تعیناتی کی درخواست کی تھی۔
پاکستان کے ملٹری اداروں نے ہمیشہ ایسے الزامات کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ فوج سیاسی ماحول یا انتخابات کے نتائج پر اثر اندار ہوتی ہے۔
آر ٹی ایس نظام میں خرابی
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات میں رزلٹ ٹراسمیشن سسٹم یعنی آر ٹی ایس کو پہلی مرتبہ استعمال کیا، تاہم انتخابات کے بعد جب نتائج آنے شروع ہوئے تو آر ٹی ایس سسٹم خراب ہوگیا۔ یورپی یونین مشن کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ گنتی کے عمل میں بعض مواقع پر مسائل تھے جبکہ بعض پولنگ عملے نے گنتی اور نتائج کے اعلان میں باقاعدہ پروسیجر کو فالو نہیں کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ میں لکھا گیا ’یورپی یونین کے مشن نے مشاہدہ کیا کہ 476 پولنگ سٹیشنوں کے مشاہدے کے دوران آدھے کے نتائج باہر نہیں نکالے گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ گنتی اور نتائج کے عمل کی شفافیت بہتر نہیں تھی جبکہ بہت سے مواقع پر گنتی کے دوران پارٹی ایجنٹس موجود ہی نہیں تھے۔‘
رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آر ٹی ایس سسٹم کی خرابی کے بعد ہونے والی دھاندلی کے الزامات کے موثر جوابات نہیں دیے اور نہ ہی یہ بتایا کہ آر ٹی ایس سسٹم کیوں خراب ہوا تھا، تاہم رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک موقع پر یہ بتایا تھا کہ نیا سسٹم نادرا کی جانب سے بنایا گیا اور اس کو پہلے ٹیسٹ نہیں کیا گیا تاہم کمیشن نے کابینہ کو درخواست کی تھی کہ انکوائری کمیشن بنا کر اس کی تحقیقات کی جائیں۔