پاکستان میں نیوکلیئر طبعیات کے ماہر سائنس دان پروفیسر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لگائے گئے نیوکلیئر پاور پلانٹس سے کسی بھی وقت کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کہا: ’کراچی میں لگنے والے نیوکلیئر پاور پلانٹ کے دو یونٹ اور آئندہ سال لگنے والے تیسرے یونٹ سے ویسے تو کچھ نہیں ہوگا۔ سب کچھ ٹھیک رہے گا لیکن اگر کوئی دہشت گردی ہوئی یا کسی نے بم مارا یا طیارہ ان پر گرا دیا تو اس صورت میں کراچی جیسے بڑے شہر کو خالی کروانا ممکن نہیں ہوگا اور کوئی بہت بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔‘
عام خیال ہے کہ قدرتی آفات کی صورت میں جوہری توانائی بجلی گھر خطرناک ہوسکتے ہیں اور یہ کہ کراچی چوں کہ ارضیاتی طور پر فالٹ لائن پر واقع ہے اور شہر کے نزدیک بلوچستان میں عرب اور انڈین ٹیکٹونک پلیٹیں ملتی ہیں لہٰذا شہر زلزلے کے خطرے سے محفوظ نہیں۔
سطح زمین سے نیچے واقع ٹیکٹونک پلیٹوں کا آپس میں ٹکرانا زلزلے کا سبب بنتا ہے۔ ان پلیٹوں کے نکتہ اتصال کو فالٹ لائن کہتے ہیں۔ 95 فیصد زلزلے یہیں آتے ہیں۔
تاہم محکمہ موسمیات کی عالمی تنظیم میں پاکستان کے نمائندہ اور محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر غلام رسول کراچی کے ایٹمی بجلی گھروں کے معاملے پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق کراچی میں اب تک لگنے والے جوہری توانائی کے دو یونٹ اور اگلے سال تیسرے یونٹ کی تعمیر کی منصوبہ بندی کے دوران پاکستانی اور چینی ماہرین کی ٹیموں نے ان سے اس وقت ملاقاتیں کی تھیں جب وہ محکمہ موسمیات کے سربراہ تھے۔
انہوں نے ماہرین کو ٹیکٹونک پلیٹوں میں حرکت، زلزلے اور سمندری طوفان کے معاملے میں معلومات فراہم کی تھیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ عالمی جوہری قوانین کے مطابق جوہری بجلی گھر اس طرح بنایا جاتا ہے کہ وہ نو ریکٹر سکیل کے زلزلے کی شدت کو برداشت کرسکیں۔
’کراچی میں زلزلے کی اوسط چار ریکٹر سکیل ہے جبکہ پانچ ریکٹر سکیل کے بعد عمارتوں کی گرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جاپان میں فوکوشیما حادثے کے بعد عالمی جوہری توانائی ایجنسی نے قوانین کو مزید سخت بنا دیا ہے۔‘
ان کے مطابق 1940 کی دہائی میں مکران ساحل پر پسنی کے قریب سونامی آیا تھا، جس کے اثرات کراچی میں بھی دیکھے گئے تھے، اس سونامی سے پہلے آنے والے زلزلے کی شدت 8.5 تھی۔
’کراچی تو کیا اگر جوہری بجلی گھر گوادر میں بھی ہوتا تو اسے کوئی خطرہ نہ ہوتا۔ ایٹمی بجلی گھر کی چمنی کی بلندی بھی اتنی رکھی گئی ہے کہ اگر 12 فٹ اونچی لہر بھی آجائے تو کوئی نقصان ہیں ہوگا۔‘ واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے جمعے کو کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے دوسرے یونٹ کا افتتاح کردیا ہے۔
اسلام آباد، کراچی اور چین کے دارالحکومت بیجنگ میں آن لائن ہونے والی تقریب میں جس یونٹ کا افتتاح کیا گیا وہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے زیرانتظام چلنے والا چھٹا ایٹمی پلانٹ ہے۔
کمیشن کے زیرانتظام کراچی میں دو اور پنجاب کے ضلعی میانوالی میں چشمہ کے مقام پر چار یونٹ کام کر رہے ہیں۔
کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ ٹو کے افتتاح سے پہلے ملک میں موجود ایٹمی ذرائع سے بجلی کی پیداوار تقریباً 1400 میگا واٹ تک تھی۔ اس نئے یونٹ کی بجلی کی پیداوار 1100 میگاواٹ ہے، یعنی نئے یونٹ کے بعد ملک میں ایٹمی بجلی کی پیداوار تقریباً دوگنی ہوجائے گی۔
انڈپینڈںٹ اردو نے اس معاملے پر ردعمل جاننے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور انرجی ڈویژن سے رابطے کیے لیکن ان کی طرف سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق نیا ایٹمی پاور پلانٹ جدید ترین تھرڈ جنریشن کا نیو کلیئر پاور پلانٹ ہے جو حفاظت اور جدید ترین انتظامات سے آراستہ ہے۔
پلانٹ میں ایمرجنسی کی صورت میں بچاؤ اور تدارک کی جدید ترین صلاحیتیں شامل ہیں۔ پلانٹ کی آپریشنل مدت 60 سال ہے جبکہ اسے مزید 20 سال تک بڑھایا جاسکتا ہے۔
اس کی تعمیر کا آغاز نومبر 2013 میں ہوا تھا جبکہ ایٹمی ایندھن کی تنصیب کا کام یکم دسمبر 2020 سے شروع کیا گیا۔
18 مارچ، 2021 کو اس پلانٹ کو نیشنل گرڈ سے جوڑا گیا اور تجرباتی طور پر بجلی کی پیداوار شروع ہوگئی۔
جتنی بجلی یہ یونٹ پیدا کرتا ہے اس کے برابر پیداواری صلاحیت رکھنے والے تیسرے یونٹ پربھی کام جاری ہے۔ یہ پلانٹ اگلے سال کے پہلے تین ماہ میں بجلی کی پیداوار شروع کردے گا۔
پروفیسر ہود بھائی کے مطابق ایٹمی بجلی گھر مہنگے ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہوا سے چلنے والے بجلی گھر کئی گنا سستے اور محفوظ ہیں۔
’ایٹمی بجلی گھروں کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی حکومت چشمہ میں ایک اور بجلی گھر لگانا چاہتی تھی لیکن قرضہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا۔‘
پروفیسر ہود بھائی کے بقول: ’کراچی میں لگنے والے دو ایٹمی پاور پلانٹس کی لاگت 10 ارب ڈالرز ہے۔ یہ پلانٹ لگانے کے لیے چین سے قرضہ لیا گیا جس پر کتنا سود ہو گا؟یہ ہمیں معلوم نہیں۔
’پاکستان نے سعودی عرب سے بھی پانچ ارب ڈالرز کا قرضہ لیا ہے جس کا مطلب ہے کہ آدھی لاگت اس قرضے سے پوری کی گئی۔ اس لیے ایٹمی بجلی گھر لگانا دانش مندی نہیں۔‘
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے جاپان کے شمال مشرق میں واقع فوکوشیما میں 10 سال پہلے زلزلے اور سونامی کے نتیجے میں وہاں ایٹمی پاور پلانٹ کو پیش آنے والے حادثے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا: ’یہ حادثہ جاپان جیسے ملک میں آیا جو ٹیکنالوجی میں چوٹی کا ملک ہے، مگر 10 سال گزرنے کے باجود وہ ابھی تک اس حادثے کے اثرات سے نہیں نکل سکا تو پاکستان میں اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’جاپانی ایٹمی پاور پلانٹ سے ابھی تک پانی کا اخراج ہو رہا ہے۔ اس پانی میں تابکاری اثرات کی موجودگی کے باعث اسے سمندر میں پھینکنے کی بجائے دیوقامت ٹینکوں میں جمع کیا جاتا ہے اور اب یہ پانی جمع کرنے کی گنجائش بھی ختم ہوگئی ہے۔‘
یاد رہے فوکوشیما میں 11 مارچ، 2011 میں سمندر کے نیچے نو درجے کی شدت کا زلزلہ آیا تھا جس سے سونامی کی 33 بلند لہریں پیدا ہوئیں۔
ان لہروں نے فوکوشیما کے ایٹمی پاور پلانٹ کو حادثے سے دوچار کر دیا۔ اس حادثے کو روس میں چرنوبل کے ایٹمی بجلی گھر کو پیش آنے والے حادثے کے بعد دوسرا بڑا حادثہ مانا جاتا ہے۔
جاپانی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق اس حادثے کے نتیجے میں ساڑھے 18 ہزار افراد ہلاک ہوئے یا پھر انہیں لاپتہ قرار دے دیا گیا۔
فوکوشیما ایٹمی پاور پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے جو پانی استعمال کیا جارہا تھا وہ آج بھی پلانٹ سے خارج ہو رہا ہے اور اس میں تابکاری کے اثرات موجود ہیں۔
اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے پاور پلانٹ کے قریب ہی اولمپک مقابلوں کے سوئمنگ پولز کے حجم کے 500 ٹینک بنائے گئے ہیں۔
ان ٹینکوں میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ختم ہو جانے کے بعد جاپان نے اس پانی کو 2022 میں بحراقیانوس میں ڈالنے کا اعلان کیا جس کے خلاف دنیا کے کئی ممالک احتجاج کر رہے ہیں۔